AURAT MARCH KION KAMYAAB NAHI HUI

2020 کے پاکستانی ٹاپ ٹرینڈنگ ٹوپک میں عورت مارچ زیرغور اور زیر گفتگو رہا جس میں ہزاروں قسم کی رائے سامنے آئیں یہاں تک کہ اس موضوع کے بارے میں بحث کرنے والوں کے الگ الگ گروپس بن گئے جن میں سے آدھے سے کم لوگوں نے اس کی حمایت بھی کی  باقی لوگوں کی رائے اس کے خلاف ہی رہی اور دیکھا جائے تو یہ عورت مارچ بری طرح سے فلاپ ہوئی۔
کیا وجہ ہے کہ بظاہر عورتوں کے حقوق دلوانے کے لیے بنائی جانے والی یہ تحریک ناکام ہوگئی؟
اس کی اہم اور بڑی وجہ یہ ہے کہ اس عورت مارچ کو کرنے کا طریقہ نہایت غیر مناسب رہا اگر اس ہی تحریک میں صرف عورتوں پر ظلم (صرف وہی ظلم جو حقیقت میں ظلم ہیں) کے بارے میں آواز اٹھائی جاتی، ان عورتوں کے بارے میں بات کی جاتی جو سچ میں غیرت کے نام پر قتل کی جاتی ہیں، ان چھوٹی چھوٹی بچیوں کے بارے میں بات کی جاتی جن کی لاشیں ہمیں انکے اغوا ہونے کے بعد اس حالت میں ملتی ہیں کہ جس پر انسانیت افسوس کرتی ہے ،ان کے بارے میں بات کی جاتی ہے جو اپنے باپ بھائی شوہر کے مرنے کے بعد اس دنیا کی سختیوں کو اکیلے ہی سہ رہی ہوتی ہیں۔
لیکن نہیں جناب یہاں تو کچھ نیا ہی چل رہا تھا ایسا کچھ جو ہمارے مسلمان معاشرے کی مسلمان عورت کو بالکل بھی زیب نہیں دیتا وہ عورت جسے قرآن نے چودہ سو سال پہلے ہی عزت دے دی وہ عورت مزید عزت مانگ رہی ہے بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ عزت کے نام پر بے حیائی کی ڈیمانڈ کر رہی ہے۔
بظاہر یہ عورت مارچ عورتوں کے حقوق کے بارے میں کم بلکہ مردوں کے خلاف زیادہ لگی ہے یعنی کہ جن عورتوں کے لئے اسلام نے مردوں کو ان کا محافظ بنایا وہ انہیں مردوں کے سامنے آکر کھڑی ہو گئی اور اپنی آزادی کا پروانہ مانگنے لگیں اپنا لباس اپنے مخصوص طور طریقوں کو مغربی طور طریقوں میں بدلنے کی ڈیمانڈ کرنے لگیں۔ سوچنے کی بات ہے کیا آج کی عورت آزاد نہیں ہے؟ اور اگر آزاد ہے تو پھر یہ نئی آزادی کیوں چاہتی ہے بات تو یہ ہے کہ مشرقی معاشرے کے ان کچھ عورتوں کو آزادی چاہیے تو صرف بے حیائی کی آزادی چاہیئے۔
آہستہ آہستہ مشرقی سمت کی عورت مغربی طرز کے ان افعال کی آزادی چاہتی ہے جس کی ممانعت اس کے لئے اسلام نے ہی کردی ہے:
قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ:
 اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیم جاہلیت کے زمانے کی طرح اپنے بناؤ سنگھار کا اظہار نہ کرو اور نماز ادا کرتی رہو اور اللہ اور اللہ کے رسول کی اطاعت گزاری کرو۔
سورۃ الاحزاب: 33
تو پھر یہ عورتیں اور کس قسم کی آزادی کی امید کرتی ہیں اور کس طرح کے حقوق چاہتی ہیں؟؟ 
جس طرح کے نازیبا مطالبات انہوں نے اس تحریک میں کئے اس سے تو بس صرف یہی ثابت ہوتا ہے کہ انہیں اور عزت نہیں چاہیے بلکہ جو عزت انہیں اسلام نے دی ہیں انہیں اس کی بھی خواہش نہیں۔
جو عورت بیٹی ہو کر رحمت بیوی ہوکر بہترین ساتھی اور ماں ہوکر جنت بن جائے اسے اور کیا چاہیے جب اللہ تعالی نے اس کے لئے مرد کو محافظ بنا دیا ہے تو وہ کیوں جاتی ہے کہ وہ معاشرے کی گرمی سردی اور سختیاں سہے؟
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! 
کہ جو کوئی کسی اور قوم کا طرز عمل اپنائیں تو وہ ہم میں سے نہیں۔
یعنی کہ جب ہمارا اللہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ہمارا سلام ہی نہیں چاہتا کہ ہم کسی اور قوم کا طرزعمل اپنائیں تو پھر ہم کیوں کسی اور قوم کا طرز عمل اپنانا چاہتے ہیں ہم کیوں چاہتے ہیں کہ ہم کسی اور قوم کی طرح بن جائیں؟ 
اس عورت مارچ کے ناکام ہونے کے پیچھے صرف یہی وجہ ہے کہ ان عورتوں کے مطالبات ان کی حدود سے باہر تھے  وہ عورتیں جو اپنے باپ بھائی اور شوہر کی عزت نے اپنی عزت جانتی ہیں انہوں نے اس تحریک کی سخت ممانعت بھی کی اور اس کا زبردست جواب بھی دیا مسلمان عورت کبھی کسی مرد کے لیے کسی غیر محرم کے لیے نمائش کا سامان نہیں بننا چاہیے گی مغرب سے لائی گئی اس تحریک میں (جس کا مقصد صرف اور صرف ایک مسلمان عورت کو اس کی حدود سے باہر نکالنا ہے )  اسلام کی وہ عورتیں کبھی شامل نہیں ہو سکتی جو اپنی عزت کی اہمیت اور قیمت کو جانتی ہوں۔

Post a Comment

0 Comments