بہت ساری رحمتوں اور برکتوں کو سمیٹ کر لے کر آتا ہے رمضان۔جب بھی اس ماہ مبارک کا ذکر کیا جاتا ہے تو بہت ساری فضیلتوں کی بات کی جاتی ہے تو کیوں نہ اس کی بات رمضان کی پہلی رات کے ذکر سے کی جائے مسلمان رمضان شروع ہونے سے پہلے ہی رمضان کی تیاری بہت ہی جوش وخروش سے شروع کر دیتے ہیں اور عبادت کی طرف بھاگتے ہیں کیونکہ اس مہینے میں انسان کے کسی بھی نیک عمل کا بدلہ اسے کئی گنا زیادہ ملتا ہے لیکن کیا ہی خوب ہو کہ اگر ہم اسلامی سال کے ہر مہینے کی تیاری اسی طرح کریں اور اسی طرح عبادت کی طرف دوڑیں۔
رمضان کی شروعات ہی ڈھیر ساری رحمتوں سے ہوتی ہے میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ !
جب رمضان کی پہلی رات آتی ہے تو آسمانوں اور جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور وہ رمضان کی آخری رات تک بند نہیں ہوتے اور جو کوئی مسلمان اس ماہ مبارک کے کسی بھی رات میں سجدہ کرتا ہے تو اللہ تعالی اسے اس سجدے کے بدلے میں پندرہ سو نیکیاں اس کے اعمال میں لکھ دیتا ہے اور اس کے لئے جنت میں سرخ یاقوت کا گھر بناتا ہے اور اس گھر میں ساٹھ ہزار دروازے ہوں گے اور ہر دروازے کے پٹ سونے کے بنے ہوں گے اور ہر پٹ میں یاقوت سرخ جڑے ہوں گے اور جو کوئی رمضان المبارک کا پہلا روزہ رکھتا ہے تو اللہ تعالی اس مہینے کے آخر تک کے سارے گناہ معاف کردیتا ہے اور اس کے لئے صبح سے شام تک ستر ہزار فرشتے دعائے مغفرت کرتے رہتے ہیں اور جو کوئی مسلمان دن یا رات میں اس ماہ مبارک میں سجدہ کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کے لیے جنت میں ایک ایسا درخت لگاتا ہے کہ جس میں وہ گھوڑے سوار پانچ سو سال تک سفر کرتا رہے تو سائے میں رہے گا۔
سبحان اللہ۔۔
تو پھر سوچیئے کہ اگر پہلے دن اور پہلی رات کی صرف یہ بات ہے تو اس پورے ماہ مبارک میں نیک اعمال کرنے پر کتنی رحمتیں ہم پر برسیں گیں اور کتنے سجدوں کے عوض کتنے یاقوت کے گھر ہمارے لئے جنت میں بنائے جائیں گے اور کتنے ہی سایہ دار درخت ہمارے لیے جنت میں لگائے جائیں گے اور اس سے آگے ہمارے لیے کتنی رحمتیں اوربرکتیں ہونگی لیکن شرط یہی ہے کہ ہمارا روزہ قبول ہو جائے اور قبول ہونے کے لیے ضروری ہے کہ روزے میں جس بھی کام کو کرنے سے منع کیا گیا ہے وہ ہم نہ کریں۔ ہمیں یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ صرف ایک عمل سے ہماری ساری نیکیاں ضائع ہوسکتی ہیں.
چنانچہ کنزالایمان میں ہے کہ!
جب رمضان کی پہلی رات آتی ہے تو شیطانوں کو زنجیروں میں جکڑ لیا جاتا ہے اور انہیں دور سمندروں میں پھینک دیا جاتا ہے اور پھر وہ رمضان کی آخری رات تک آزاد نہیں ہوتے۔
یہ صرف اس لئے کہ مسلمان کا روزہ شیاطین خراب نہ کرسکیں تو اب جب شیاطین ہی قید ہو جائیں گے تو مسلمان خود اپنے روزے کے بگاڑنے یا سوارنے کے ذمہ دار ہوں گے۔ یعنی شیطان کے بعد اب بچتا ہے نفس جسے کنٹرول کرنا خود انسان کے ہاتھ میں ہے اور ساتھ ہی یہ ہمارے ایمان کی پختگی کا ثبوت بھی دیتا ہے۔یعنی تزکیہ نفس ہمارے روزے کو سنوارنے میں کا اہم کردار ادا کرتا ہے۔
تزکیۂ نفس ایک قرآنی اصطلاح ہے ۔اسلامی شریعت کی اصطلاح میں تزکیہ کا مطلب ہے اپنے نفس کوان ممنوع معیوب اور مکروہ امور سے پاک صاف رکھنا جنہیں قرآن وسنت میں ممنوع معیوب اورمکروہ کہا گیا ہے۔گویا نفس کو گناہ اور عیب دارکاموں کی آلودگی سے پاک صاف کرلینا اور اسے قرآن وسنت کی روشنی میں محمود ومحبوب اور خوب صورت خیالات وامور سے آراستہ رکھنا ہے۔اللہ تعالیٰ نے انبیاء کو جن اہم امور کےلیے بھیجا ان میں سے ایک تزکیہ نفس بھی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے کہ!
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نوع انسانی کی اصلاح کے حوالے سے جو چار اہم ذمہ داریاں ڈالی گئیں اس کے چار پہلو ہیں پہلا تلاوت آیات, دوسرا تعلیم کتاب, تیسرا تعلیم حکمت اور چوتھا تزکیہ نفس۔
قرآن مجید میں یہی مضمون چار مختلف مقامات پر آیا ہے جن میں ترتیب مختلف ہے لیکن ذمہ داریاں یہی دہرائی گئی ہیں۔ان آیات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تلاوت آیات اورتعلیم کتاب وحکمت کا منطقی نتیجہ تزکیہ ہے۔تزکیہ نفس کے حصول کےلیے قرآن وحدیث میں وارد بہت سے امور کااختیار کرنا اور بہت سےامور کا ترک کرنا ضروری ہے۔
0 Comments
kindly do not write spam material.