SUCHI TOUBA

خوش نصیب ہے وہ جو جوانی میں توبہ کرے جوان کی توبہ پر عرش الہی جوم اٹھتا ہے خوش نصیب لوگ ہیں جن کو سچی توبہ نصیب ہوتی ہیں ایسی توبہ جو انہیں راہ راست پر لے آتی ہے ایسی توبہ انہیں صراط مستقیم پر چلنا سکھاتی ہے۔ قبرستان بھرے پڑے ہیں ایسے لوگوں سے جو اپنی زندگی کو یوں ہی بے کار گزار دیتے ہیں اور پھر ان کے پاس پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں بچتا قبل از وقت کہ آخرت آئے سچی توبہ بہت ضروری ہے ہر اس گناہ سے جو ہم کھلم کھلا کرتے ہیں یا چھپ کر کرتے ہیں  آج کا پچھتاوا کل کے پچھتاوے سے بہت درجے بہتر ہے جنت میں جانے کی تمنا کرنے والے جب جنت میں پہنچ جائیں گے تو کوئی حسرت باقی نہیں رہ جانی چاہیے  لیکن تب بھی ان کی ایک حسرت باقی رہ جائے گی کہ وہ لمحہ جو اللہ کی یاد سے غافل گزارا تو وہ کیوں گزارا ؟؟ زندگی گزر جائے گناہ کرتے کرتے لیکن میرے اللہ کی رحمت اتنی ہے کہ صرف دو آنسو کے بدلے ساری زندگی کے گناہ معاف کر دیتا ہے انہیں چھپا لیتا ہے وہ گناہ جو اکیلے میں کیے جو لوگوں سے چھپ کر کئے لیکن اگر ان پر معافی مانگ لی جائے سچی توبہ کر لی جائے تو اللہ تعالی انہیں معاف کر دیتا ہے ہاں اب بھی موقع ہے ابھی فرصت ہے ابھی جان باقی ہے ابھی سورج مغرب سے نہیں چڑھا ہے توبہ کا دروازہ بند نہیں ہوا اللہ کی رحمت کے در کھلے ہیں روزانہ آواز آتی ہے کہ ہے کوئی جو مجھ سے مغفرت طلب کرے کہ میں اس کو معاف کردوں اگر ہم یہ سوچتے ہیں کہ ابھی بہت وقت پڑا ہے اور ابھی گناہ کر لیں گے اور پھر معافی مانگ لیں گے تو اس سوچ کے ساتھ وہ وقت کبھی نہیں آئے گا ہم گناہ کرتے جائیں گے کرتے جائیں گے اور پھر آخرت میں نقصان کے سوا ہاتھوں کچھ نہیں آئے گا۔
 کیوں نہ اپنا اقرار جرم کرکے اس کی بارگاہ میں آگے نہ کرنے کی نیت کرلی جئے اس کی بارگاہ میں کھلے منہ سے جائیں ایسا نہ ہو کہ پھر کفن میں منہ چھپا کر جائیں تو کیوں نہ اس کی بارگاہ میں خود چل کر جائیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ پھر کندھوں پر اٹھا کر لے جایا جائے۔
میں یہ بات کیوں نہ بیان کرو کے ایک فقیر تھا جو بازار میں کھڑا رو رہا تھا کسی نے اس سے پوچھا کہ تم کیوں رو رہے ہو کیا تمہیں کسی نے تنگ کیا ہے؟؟ کیا کسی نے ستایا ہے؟؟  اس نے کہا کچھ نہیں ہوا صرف لوگوں کے رویوں نے مجھے مایوس کر دیا ہے پھر پوچھا کہ کیا ہوا؟ تو کہا کہ ایسے ہی میرا ذہن بنا کے لوگوں کی اور رب کی صلح کروا لوں لیکن رب تو مانتاہے پر لوگ نہیں مانتے وہ تو کہتا ہے کہ میری دہلیز پر آ جاؤ دو ندامت کے آنسو بہاؤ میں تمہیں معاف کردوں گا پر یہ لوگ میرا مذاق اڑا رہے ہیں اور مجھے الٹا بےوقوف کہہ رہے ہیں اور مجھے کہتے ہیں کہ تم کیا ہمیں بتاؤ گے؟؟ اگلے دن پھر وہی بابا اس شخص کو  قبرستان میں کھڑے ہوئے ملے لے اور رو رہے تھے تو اس آدمی نے پوچھا کہ بابا کیا معاملہ ہے کہ کبھی بازار میں روتے ہو تو کبھی قبرستان میں روتے ہو کہامیں وہاں سے مایوس ہو گیا تو یہاں پر چلایا آیا پر یہاں بھی صلح نہیں کرا پایا اس شخص نے پوچھا کہ اب کیا مسئلہ ہے تو بابا نے کہا کہ کہ اب یہ تو مان رہے ہیں پر میرا رب نہیں مان رہا اللہ اکبر۔۔۔۔
 بڑی مہلت مل رہی ہے ڈوبتا ہوا سورج روز ہمیں بتا رہا ہے روز جنازے اٹھ رہے ہیں اور ہمارے سامنے حقیقت واضح ہو رہے ہیں تو کیوں نہیں مانتے اس رب کی جس نے اتنی ڈھیل دے رکھی ہے جس کے قبضے میں تمام انسانوں کی جانیں ہیں اتنے گناہوں پر بھی اتنی نعمتوں سے نوازا۔
  روز بڑھاپا ہمیں آواز دے رہا ہے لیکن کسی بات پر غور نہیں کر رہے اور لمبی زندگی کی امید لے کر بیٹھے ہیں پچھتاوے کے وقت سے پہلے توبہ کرلی جائے تو کیا ہی زبردست بات ہے ایسی توبہ جو ہمارے رب کو پسند آئے۔
توبہ کی شرائط تین ہیں پہلی تو یہ کہ جو گناہ کیا ہے اس پر ندامت ہو شرمندگی ہو دوسرا یہ کہ اس گناہ کو ترک کرنے کا پختہ عزم کیا جائے اور تیسری یہ ہے کہ آئندہ اسے کبھی نہ کیا جائے۔ 
لیکن انسان تو انسان  ہے غلطی کرتا ہی ہے لیکن میرا رب اسے ہر بار معاف کر دیتا ہے تو کیوں نہ کچھ ایسے اصول بنائے جائیں کہ جن سے وہ غلطی دوبارہ نا ہوگی جسے کوئی بھی ایسا گناہ جس سے نہ کرنے کا ارادہ کر لیں ساتھ میں اس گناہ کو دوبارہ کر لینے پر کچھ سزا مقرر کرلیں اور اگر وہ گناہ دوبارہ ہو جاتا ہے تو سزا خود پر لازم کرلیں تاکہ جب بھی دوبارہ کوئی گناہ کرنے کا خیال دل میں آئے تو ساتھ میں وہ سزا بھی یاد رہے۔
صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالی یقینا تم میں سے کسی کے توبہ کرنے پر اس سے زیادہ خوش ہوتا ہے جتنا تم میں سے کوئی شخص اپنی گمشدہ سواری واپس باقر خوش ہوتا ہے۔
                    6953 صحیح مسلم 
     

Post a Comment

0 Comments