معاشرے میں بڑھتی ہوئی برائیاں اور ان کی دن بدن بڑھتے ہوئے اثرات ان کی وجہ صرف یہ ہے کہ ہم نے گناہ کو گناہ سمجھنا چھوڑ دیا ہے لیکن جب مسلمان گناہ کو گناہ سمجھنا چھوڑ دیتا ہے یا وہ ہر گناہ کو چھوٹا سمجھنے لگتا ہے تو وہ ان چھوٹے چھوٹے گناہوں کو کرنے میں کوئی عار کوئی شرم محسوس نہیں کرتا اور اسی طرح وہ چھوٹے چھوٹے گناہوں کے منازل کو طے کرتے کرتے بڑے گناہوں تک پہنچ جاتا ہے اور یہ کسی ایک شخص کی بات نہیں ہے معاشرہ بھرا پڑا ہے ایسے لوگوں سے جنہوں نے گناہوں کو درجات میں تقسیم کر دیا ہے ان کے مطابق اگر وہ کم درجے کے گناہ کرتے ہیں یعنی چھوٹے چھوٹے گناہ کرتے ہیں گناہ صغیرہ کرتے ہیں تو وہ گناہ کبیرہ کرنے والوں کو خود سے کمپئر کرتے ہیں اور اندر ہی اندر اس بات سے مطمئن رہتے ہیں کہ ان سے کوئی بڑا گناہ نہیں ہوا حالانکہ وہ ان چھوٹے چھوٹے گناہوں سے چل کر آگے بڑے گناہوں کی طرف بڑھ رہے ہوتے ہیں اور اس طرح سے معاشرے میں خرابی پیدا ہوتی ہے یاد رکھیں جب تک کہ کسی گناہ پر شرمندگی نہیں ہوگی یا ان گناہوں کو چھوڑنے کی کوشش نہیں کریں گے یااس گناہ کو ترک نہیں کریں گے تو تب تک ہماری مغفرت نہیں ہوگی ہم اللہ کو مہربان جان لیتے ہیں مغفرت کرنے والا جان لیتے ہیں اور بےشک وہ بہت رحیم رحمٰن اور مہربان ہے لیکن کیا صرف یہ سوچ لینا کہ اللہ تعالی تو بہت رحیم ہے رحمٰن ہے وہ معاف کردے گا اور بغیر کسی شرمندگی اور عار کے گناہ کرنا جائز ہے ؟؟ کیا یہ صحیح ہوگا کہ ہم اس گناہ کو ترک کرنے کی کوشش نہ کریں اور صرف یہ سوچ کے کہ اللہ تعالی ہمیں معاف کر دے گا صرف اس لئے کہ ہم مسلمان ہیں ہاں اللہ تعالی ہمیں معاف کردے گا لیکن صرف اسی صورت میں کے دوبارہ اس گناہ کو کرنے کا ارادہ بالکل ترک کر دیں اور یہ نیت کرلیں کے ہم دوبارہ وہ گناہ نہیں کریں گے۔
اللہ تعالی کے نزدیک نہ کوئی نیکی چھوٹی ہوتی ہے اور نہ کوئی گناہ چھوٹا ہوتا ہے گناہ گناہ ہوتا ہے اور نیکی نیکی ہوتی ہے۔
اگر ہم اپنے اردگرد دیکھیں یا خود اپنے آپ کو ہی دیکھیں تو روزانہ اس طرح کے گناہ ہوتے ہیں کہ انسان سوچتا ہے کہ کیا ہی بڑی بات ہے اگر میں یہ کام کر لوں جبکہ یہ بات یاد رکھیں کہ انسان کے عمل کا دارومدار اس کی نیت پر ہوتاھے۔ نیکی چھوٹی ہو یا بڑی اس کا صلہ اس کی نیت پر ملتا ہے اسی طرح گناہ چھوٹا ہو یا بڑا اس کا صلہ بھی اسکی نیت پر ملتا ہے۔آج کل ہم جس طرح کی پریشانیوں میں گھرے ہوئے ہیں یہ سب اچانک سے ہم پر مسلط نہیں ہوا بلکہ آہستہ آہستہ ہمارے اعمال کی وجہ سے یہ ہم پر مسلط ہوا ہے۔ ہم نے ہی جو لباس اسلام نے ہمارے لئے مختص کیا اس لباس کو چھوڑ کر مغربی طرز کا لباس اپنایا اور اسے فیشن کا نام دیدیا ، ہم ہی ہیں جو کسی کا حق مارتے ہوئے اس حق کو اپنا سمجھ لیتے ہیں، خواتین اگر آبائے استعمال کرتی ہیں تو صرف فیشن کے لیے اور اس طرح کی آبائے پہنتی ہیں کہ جن کے پہننے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا اکثر اتنے نے تنگ ہوتے ہیں کہ جس میں سے جسم نمایاں ہوتا ہے، ہم ہی ملاوٹی اشیاء کثرت سے فروخت کرتے ہیں، ہم میں سے ہی بہت لوگ اگر کسی بھوکے کو ایک وقت کا کھانا کھلادیں تو اسے دس جگہ گاتے ہیں ہر طرح کی سوشل میڈیا ایپ پر اس کی پکچرز لگاتے ہیں جو کہ موجودہ صورتحال میں کثرت سے ہو رہا ہے اور پھر ہم سوچتے ہیں کہ ہم نے نیکی کی ہے اور پھر بدلے میں اللہ تعالی سے اجر کی توقع بھی کرلیتے ہیں کیا ہم یہ نہیں سوچتے کہ نیکی کی آڑ میں ہم کتنا بڑا گناہ کر رہے ہیں جسے ریاکاری کہتے ہیں، ان گناہوں کو بظاہر ہم گناہ نہیں سمجھتے پر اس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں آج ہر طرح کی پریشانی میں مسلمان گھیرا ہوا ہے۔صحیح بخاری میں آتا ہے کہ!
ایک فاحشہ عورت جو کہ توحید پر تھی اس نے ایک کتے کو پانی پلایا اور اللّٰہ تعالیٰ کو اسکی یہ ادا پسند آئی اور اللّٰہ نے اسے جنت میں داخل کیا 3321
( یاد رکھیں بغیر توحید کے کوئی جنت میں داخل نہیں ہوگا توحید کو ایمان کا لازمی جز قرار دے دیا گیا ہے)
اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالی کو ہماری کونسی نیکی پسند آجائے یہ ہم نہیں جانتے۔ اس ہی طرح ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ!
ایک عورت تھی جو عبادت کرتی تھی پر اس نے ایک بلی کو پکڑ کر اور اسے نا خود کھیلایا نا اسے آزادکیا کہ وہ خود کھالے اور وہ بلی مر گئی تو اللہ تعالیٰ نے اسے جہنم رسید کرد۔
صحیح بخاری:3482
یعنی کہ چاہیے کتنی نیکیاں کر لیں اگر ایک گناہ ایک غلط کام اللّٰہ نے پکڑ لیا تو آخرت میں صرف بربادی ہی بربادی ہے۔
0 Comments
kindly do not write spam material.