ماہ صیام جس میں اللہ تعالی نے ہمیں بھوک گوارا کرنے کی توفیق دی اور جو برے افعال ہیں ان سے بھی روک دیا یہ عمل خوراک کو بچانے کے لئے نہیں ہے۔حدیث میں آتا ہے کہ 29 شعبان کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دیا کرتے تھے جس میں رمضان کے احکام بیان فرماتے تھے ایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ جب ماہ رمضان آتا ہے تو مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے عام لوگ جو عام دنوں میں جو نعمتیں نہیں خرید سکتے نہیں لے سکتے اور رمضان المبارک میں مہنگی ہونے کے باوجود بھی ان تک پہنچ جاتی ہیں اور یہ اللہ تعالی کا ہم پر کرم ہے۔
اس مہینے میں خرچ کرنے سے اجر بھی بڑھتا ہے رمضان المبارک میں ایک نفل کا ثواب ایک فرض کے ثواب کے جتنا ملتا ہے اور ایک فرض کا ثواب ستر فرض کے ثواب کے برابر ملتا ہے اسی طرح خرچ کرنے میں بھی ہے ایک بار خرچ کرنے سے 70 گنا خرچ کرنے کا ثواب ملتا ہے جب اتنی نعمتیں اس ماہ رمضان میں مسلمانوں کو مل رہی ہیں تو پھر یہ روزہ اور بھوک برداشت کرنا کیوں ؟؟ اللہ تعالی عزوجل نے اس کی وجہ بیان فرما دی ہے !
تاکہ تمہیں بچنے کا سلیقہ آئے تاکہ تمہیں طریقہ آے بچنے کا تمہیں تقوی کا نور نصیب ہو ۔
لیکن اگر یہ سوال آتا ہے کہ صرف بھوک اور پیاس کاٹنے سے تقوی نصیب ہو جاتا ہے؟ تو ہاں بھوک اور پیاس کاٹنے سے تقوی نصیب ہو جاتا ہے کیسے؟؟
اگر روزے کے آداب کے ساتھ ساتھ روزہ رکھا جائے تو بھوک اور پیاس برداشت کرنے سے مسلمان تقوی کے قریب ہوجاتا ہے کیونکہ اس سے شہوات نفسانیاں کم ہوتی ہیں۔
جس طرح نماز ہمیں بے حیائی سے بچاتی ہے اسی طرح روزہ ہم میں تقویٰ پیدا کرتا ہے روزہ ڈھال ہے جہنم کی آگ سے روزہ اللہ اور بندے کے مابین ایک راز ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روزے کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ہر شے کی ایک زکوٰۃ ہوتی ہے انسان کے جسم کی زکوۃ روزہ ہے اگر روزہ رکھے گا تو جسم زکوٰۃ ادا کرے گا جس طرح زکوۃ سے مال پاک ہوتا ہے اس طرح روزے سے جسم پاک ہوتا ہے اور روزہ ویسے بھی انسان کے لیے شفا کا پیام ہے۔
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سحری کھایا کرو کیونکہ سحری کے کھانے میں بھی اللہ تعالی نے برکت رکھی ہے تو یوں ماہِ صیام اپنے دامن میں رحمت لے کر برکت لے کر حاضر ہوتا ہے۔ اس کا پہلا حصہ رحمت درمیانی حصہ مغفرت اور آخری حصہ جہنم کی آگ سے بچانے کا ذریعہ ہے۔
حدیث میں آتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کو روزے کے حوالے سے پانچ چیزیں ایسی عطا کی گئی ہیں جو کسی دوسری امت کو پہلے عطا نہیں کی گئیں۔
پہلی یہ کہ رمضان المبارک میں روزے کے درمیان جو مومن کے منہ سے بو نکلتی ہے وہ اللہ تعالی کو مشک کی خوشبو سے زیادہ پسند ہے۔
دوسری بات کہ جب ماہِ صیام آتا ہے تو شیاطین کو جکڑ لیا جاتا ہے۔
تیسری بات کے روزے دار جب تک روزے کی حالت میں رہتا ہے تو فرشتے اس کے لئے مغفرت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں۔
اور چوتھی بات کہ جب ماہ صیام کی آخری رات آتی ہے تو اس کے سب گناہوں کو بخش دیا جاتا ہے اور اس کو جہنم سے آزادی کا پروانہ مل جاتا ہے۔
بلکہ ایک صحابی نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات عرض کی کہ یہ جو جہنم سے آزادی کا پروانہ مل جاتا ہے کیا یہ صرف لیلۃ القدر کی رات کے لئے ہے؟؟تو آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں جب مزدور اپنی مزدوری مکمل کرتا ہے اور اس کی دیھاڑی پوری ہوجاتی ہے تو جب اس کا مالک اس کو کچھ دیتا ہے تو جو اس کا مالک اس کو دیتا ہے وہ اس کی مزدوری ہوتی ہے اسی طرح مومن کی مزدوری اس کے روزہ رکھنے کے بدلے میں اس کو بخشش و مغفرت ملتی ہے اور لیلۃ القدر کی برکتیں اس کے علاوہ ہیں۔
اور پانچویں فضیلت جو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ایک روایت ہے جسے امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ اور امام امام مسلم رحمتہ اللہ علیہ نے نقل کیا ہے کہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے !
ابن آدم کا ہر عمل اسی کے لیے ہے ہاں مگر روزہ نہیں جو وہ میرے لئے رکھتا ہے اس کی جزاء میں اسے دوں گا روزہ ڈھال ہے اور جب کوئی شخص روزہ رکھے تو وہ اس کے اندر اللہ کی نافرمانی نہ کرے یہاں تک کہ اگر کوئی شخص اس کو گالی بھی دے تو وہ یہ کہے کہ میں روزے سے ہوں یہ کہہ کر لڑنے والے کو ٹال دے۔ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ روزے دار کے لئے دو خوشیاں ہیں ایک خوشی اسے اس وقت ملتی ہے جب وہ روزہ افطار کرتا ہے اور دوسری خوشی اسے تب ملتی ہے جب اس روزے کے سلسلے میں اسے اپنے رب کا دیدار عطا ہوگا سبحان اللہ۔۔
اس دنیا میں سب سے بڑی دولت جو دولت حضرت اسحاق علیہ السلام کو دی گئی تھی وہ دولت ایمان ہے اور قیامت کے دن جو سب سے بڑی دولت ایک مومن کو مسلمان کو دی جائے گی وہ اللہ تعالی کا دیدار ہوگا۔
جنت کی ہر نعمت دنیا کی ہر نعمت سے زیادہ مسلمان کی چاہ ہے لیکن ایک ایسی نعمت جس کو مسلمان جنت میں جانے کے بعد بھی پانے کی خواہش کریں گے اور وہ نعمت بہت بڑی ہے بہت عظیم ہے اور اس نعمت کے ملنے پر باقی ساری نعمتوں کو بھول جائیں گے اور وہ نعمت یہ ہے کہ رب اپنے رخ کرم سے پردہ ہٹا دے گا اور مومن کو اپنا دیدار عطا فرما دے گا تو یہ سب سے بڑی نعمت جو مومن کو آخرت میں نصیب ہوگی یہ روزے کے سلسلے میں نصیب ہوگی۔
حدیث میں آتا ہے کہ اعمال جو ہیں وہ سات طرح کے ہیں دو اعمال جو ہیں وہ واجب کرتے ہیں دو اعمال ایسے ہیں کہ جن کی جزاء ان کی مثل ہے اور ایک عمل ایسا ہے کہ جس کی جزاء دس گناہ ہے اور ایک عمل ایسا ہے کہ جس کی جزاء 700 ہے اور ایک عمل ایسا ہے کہ جس کی جزا بے حساب ہے فرمایا کہ وہ دو عمل جو واجب کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے اللہ تعالی کی عبادت کی اور اسے کسی کے ساتھ شریک نہ ٹھہرایا یہ عمل جنت کو اس پر واجب کرتے ہیں یعنی اسے جنت کا ملنا لازم ہے ضروری ہے واجب ہے اس پر اور دوسرا عمل یہ کہ جس نے اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک کیا تو اس پر جہنم واجب ہے۔
اور دو وہ عمل جن کی جزا ان کے مثل میں ہے یعنی اگر کوئی ایک گناہ کرتا ہے تو اسے اس کا پھل اس کی مثل پر ملے گا اور اگر کوئی نیکی کرتا ہے تو اس کا اجر بھی اس کی مثل پر ملے گا۔
اور ایک عمل وہ ہے کہ جس پر اسے دس گناہ زیادہ اجر ملتا ہے اور وہ اس کی نیکیوں میں اضافہ کرتا ہے۔
اور ایک عمل ایسا ہے کہ جس کے بدلے میں اس کو سات سو گناہ زیادہ اجر دیا جاتا ہے اور وہ راہ خدا میں اس کا صدقہ کرنا ہے۔
اور ایک عمل ایسا ہے کہ جس کا اجر بے حساب ہے اور وہ بندے کا اپنے اللہ کے حضور اپنے روزے کے ساتھ پیش ہونا ہے سبحان اللہ۔۔
تو روز ایک ایسا عمل ہے کہ جس کی جزا کا کوئی حساب نہیں ہے کیونکہ یہ اللہ تعالی کے لیے ہے اور جب اللہ تعالی اس کی جگہ دے گا تو وہ ہماری سوچ سے کی حد گناہ زیادہ ہوگا۔
0 Comments
kindly do not write spam material.