CORONAVIRUS MAI HUQOOQ E ALLAH AUR HUQOOQ UL IBAAD KI EHMIYAT

مکہ شریف میں ایک شخص تھا جو ساٹھ سال تک مسلسل عبادت کرتا رہا دن کے وقت طواف کرتا اور رات میں قرآن پاک کی تلاوت کرتا اور اس طرح 60 سال تک عبادت کرتا رہا وہ بھی مکہ پاک میں اگر آپ کو معلوم ہو  وہاں پر ایک نیکی کا ثواب ایک لاکھ نیکی کے برابر ملتا ہے تو ذرا سوچیے کہ اس شخص نے ساٹھ سال تک کتنی نیکیاں کمائیں ہوگیں اس شخص کا ایک دوست تھا جس نے کسی سفر پر جانے سے پہلے اپنی ایک امانت اس کے پاس رکھوائی تھی کہ یہ میرا دوست بہت نیک ہے تو کیوں نہ میں اپنی رقم اس کے پاس امانت کے طور پر رکھ دو  لیکن جب تک اس کا دوست  واپس آیا تو اس شخص کا انتقال ہو چکا تھا  چنانچہ اس شخص کا دوست بہت پریشان ہوا کہ اب وہ اپنی امانت کس طرح حاصل کرے تو اس وقت کے علماء کرام کے پاس گیا اور ان سے یہ مسئلہ شیئرکیا علماء کرام نے اسے مشورہ دیا کہ زم زم کے کنویں کے پاس جتنی بھی روئی نیک ہوتی ہیں وہاں موجود ہوتی ہیں کیونکہ تمہارا دوست نیک تھا تو تم وہاں جاکر رات کے آدھے پہر میں اسے پکارو اگر وہاں ہوگا تو وہ تمہیں جواب دے گا اس شخص کے دوست نے بالکل ایسا ہی کیا وہ زم زم کے کنویں کے پاس گیا اور وہاں جاکر اپنے دوست کا نام پکارا لیکن وہاں سے کوئی آواز نہیں آئی اس شخص کا دوست واپس علمائے کرام کے پاس گیا اور انہیں دوبارہ یہ مسئلہ بتایا تو علماء کرام پریشان ہوئے اور کہا کہ ہمیں خوف کے کہیں وہ شخص جہنم میں نہ چلا گیا ہو علماء نے اسے مشورہ دیا کہ تم یمن کے پاس کنواں ہے(جہاں ساری گنہگار روحیں ہوتی ہیں )وہاں جا کر رات کے آخری پہر میں اسے پکارو ہو سکتا ہے کہ وہ وہاں ہو اور اللہ تعالی کا عذاب بھگت رہا ہو ؟؟ اس شخص نے ایسا ہی کیا وہ سفر کرکے یمن گیا اور اس کنوے کے پاس جا کر رات کے آخری پہر میں اپنے دوست کو آواز دیں تو اسے جواب مل گیا اس کے دوست نے اسے بتایا کہ اس کی امانت اس کے گھر میں زمین کے نیچے دفن ہیں کہ وہاں سے جاکر لے لے۔ جاتے جاتے اس شخص نے اپنے دوست سے پوچھا کہ تم تو بہت نیک تھے تو تم یہاں جہنم کا عذاب کیوں ہو بھگت رہے ہو اس کے دوست کی روح نے جواب دیا کہ میں اللہ تعالی کی عبادت تو کرتا تھا لیکن میری ایک بہن تھی جو کہ معذور تھی میں اس کا خیال نہیں رکھ پاتا تھا جس کے بدلے میں اللہ تعالی نے میرے ساٹھ سال کے سارے اعمال ضائع کر دیئے ہیں اور میں عذاب بھگت رہا ہوں اللّٰہ اکبر۔۔ اس کا دوست واپس گیا اور اپنی رقم لینے کے بعد اپنے دوست کی بہن کے پاس گیا اسے کچھ تحائف دیئے  اور اس سے درخواست کی کہ وہ اپنے بھائی کو معاف کردے۔اللہ اکبر۔۔ 
اس واقعے کو یہاں بیان کرنے کا مقصد صرف اتنا ہے حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد بھی نہایت ضروری ہے جنہیں پورا نہ کرنے پر ہم اللہ تعالی کی ناراضگی کو آواز دیتے ہیں۔
اور وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالی اپنے حقوق معاف کردے گا لیکن بندوں کے حقوق معاف نہیں کرے گا تو ایسا  بھی کہیں نہیں لکھا اللہ تعالی اپنے اور اپنے بندوں دونوں کے حقوق کے بارے میں باز پرس کریگا ہاں یہ بات صحیح ہے کہ حقوق اللہ میں صرف اللہ سے معافی مانگنا ضروری ہے جبکہ حقوق العباد میں اللہ کے ساتھ بندے سے بھی معافی مانگنا ضروری ہے اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرما رہے ہیں کہ!
 جو لوگ گناہ کما رہے ہیں نافرمانیاں کر رہے ہیں عنقریب ہے کہ انہیں اس گناہ کا بدلہ دیا جائے گا۔
اس آیت میں دونوں طرح کے حقوق کی بات کی جارہی ہے حقوق اللہ بھی اور حقوق العباد ہم سے پہلے جو قومیں گزر گئے ان میں سے جن قوموں پر عذاب آئے اس کی وجہ حقوق اللہ بھی تھی اور حقوق العباد بھی اور بعض ایسی تھیں کہ جن پر دونوں کی وجہ سے عذاب آئےجولوگ یہ کہتے ہیں کہ حقوق اللہ کی اہمیت کم ہے اور حقوق العباد کی اہمیت زیادہ ہے تو یہ جملہ بالکل غلط ہے پہلے اللہ کے حقوق آتے ہیں اور پھر بندوں کے حقوق کیوں کہ جس نے ہمیں پیدا کیا جس نے ہمیں بنایا اور جس کے قبضے میں ہماری جان ہے اس کے حقوق زیادہ ضروری ہیں لیکن اگر ان دونوں میں سے ایک بھی پورے نہ کئے جائیں تو انسان گناہ کا حقدار ہوگا۔ 
جس طرح کوئی انسان کسی کے مال کی حق تلفی کرتا ہے تو وہ دونوں طرح کے گناہ میں آجاتا ہے حقوق العباد کا پورا نہ کرنے میں بھی اور حقوق اللہ کو پورا نہ کرنے میں بھی حقوق العباد کو پورا نہ کرنے میں اس لیے کہ اس نے اس بندے کا حق مارا اور حقوق اللہ کو پورا نہ کرنے میں اس لیے کہ اللہ تعالی نے اس کام کو کرنے سے منع کیا ہے۔اس وقت کے حالات کی سچویشن کو دیکھا جائے تو حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کو پورا کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ اس وقت اللہ کے ان بندوں  کی مدد کرنا بھی ضروری ہے جو اس مصیبت کے وقت میں مشکل میں ہیں اور اللہ تعالی کی نافرمانی کر کر جو عذاب ہم پر آیا ہے اس کی معافی کی بھی ضرورت ہے۔ موجودہ صورتحال میں حقوق العباد کو پورا کرنا یہ ہے کہ اگر تم صاحب استطاعت ہیں تو ان لوگوں کی مدد کریں جو اس مشکل وقت میں ایک وقت کی روٹی کے لیے ترس رہے ہیں۔ اور حقوق اللہ یہ ہے کہ اس مشکل وقت میں مسجد بند ہونے کے باوجود ہم گھر میں رہ کر اللہ کی عبادت کریں۔مسئلہ یہ درپیش ہے کے اللہ تعالی نے کہا کہ باجماعت نماز پڑھو لیکن موجودہ صورتحال کی وجہ سے مسجد بند ہیں اور مسجد میں نماز ادا نہیں کی جاسکتی ہے تو کیا یہ حقوق اللہ کی حق تلفی ہے ؟؟ اور اگر ہم مسجد جاتے ہیں گھروں سے باہر نکلتے ہیں اور اس وجہ سے اگر ہمارے درمیان موجودہ وبا پھیلنے لگے اور انسانی جانوں کا ضیاع ہونے لگے تو کیا یہ حقوق العباد کی حق تلفی ہے ؟؟ نماز پڑھنے کا حکم باجماعت ہی ہے لیکن ایسے وقت میں جب مسجد ہے بند ہے تو کیوں نہ ہر گھر کو مسجد بنایا جائے جس گھر میں بھی دو سے تین افراد موجود ہیں یا اس سے زیادہ افراد موجود ہیں تو اپنی جماعت بنا کر نماز ادا کریں اس طرح حقوق اللہ کی بھی حق تلفی نہ ہو گی اور حقوق العباد کی بھی حق تلفی نہ ہو گی۔حقوق اللہ اور حقوق العباد جیسے حقوق کو پورا کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم اسلامی ماہرین  دین کے علماء کی باتوں کو سنیں سمجھیں اور ان پر عمل کریں اور ان پر یقین رکھیں۔دوسری جانب ایسے لوگوں پر نظر رکھے جو آپ کے قریب ہو اور ضرورت مند ہو اور آپ ان کی ضرورتوں کو پورا کر سکتے ہوں کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ اردگرد کے لوگوں سے غافل ہو جائیں اور انہیں آپ کی ضرورت ہو۔

Post a Comment

0 Comments