مکہ شریف میں ایک شخص تھا جو ساٹھ سال تک مسلسل عبادت کرتا رہا دن کے وقت طواف کرتا اور رات میں قرآن پاک کی تلاوت کرتا اور اس طرح 60 سال تک عبادت کرتا رہا وہ بھی مکہ پاک میں اگر آپ کو معلوم ہو وہاں پر ایک نیکی کا ثواب ایک لاکھ نیکی کے برابر ملتا ہے تو ذرا سوچیے کہ اس شخص نے ساٹھ سال تک کتنی نیکیاں کمائیں ہوگیں اس شخص کا ایک دوست تھا جس نے کسی سفر پر جانے سے پہلے اپنی ایک امانت اس کے پاس رکھوائی تھی کہ یہ میرا دوست بہت نیک ہے تو کیوں نہ میں اپنی رقم اس کے پاس امانت کے طور پر رکھ دو لیکن جب تک اس کا دوست واپس آیا تو اس شخص کا انتقال ہو چکا تھا چنانچہ اس شخص کا دوست بہت پریشان ہوا کہ اب وہ اپنی امانت کس طرح حاصل کرے تو اس وقت کے علماء کرام کے پاس گیا اور ان سے یہ مسئلہ شیئرکیا علماء کرام نے اسے مشورہ دیا کہ زم زم کے کنویں کے پاس جتنی بھی روئی نیک ہوتی ہیں وہاں موجود ہوتی ہیں کیونکہ تمہارا دوست نیک تھا تو تم وہاں جاکر رات کے آدھے پہر میں اسے پکارو اگر وہاں ہوگا تو وہ تمہیں جواب دے گا اس شخص کے دوست نے بالکل ایسا ہی کیا وہ زم زم کے کنویں کے پاس گیا اور وہاں جاکر اپنے دوست کا نام پکارا لیکن وہاں سے کوئی آواز نہیں آئی اس شخص کا دوست واپس علمائے کرام کے پاس گیا اور انہیں دوبارہ یہ مسئلہ بتایا تو علماء کرام پریشان ہوئے اور کہا کہ ہمیں خوف کے کہیں وہ شخص جہنم میں نہ چلا گیا ہو علماء نے اسے مشورہ دیا کہ تم یمن کے پاس کنواں ہے(جہاں ساری گنہگار روحیں ہوتی ہیں )وہاں جا کر رات کے آخری پہر میں اسے پکارو ہو سکتا ہے کہ وہ وہاں ہو اور اللہ تعالی کا عذاب بھگت رہا ہو ؟؟ اس شخص نے ایسا ہی کیا وہ سفر کرکے یمن گیا اور اس کنوے کے پاس جا کر رات کے آخری پہر میں اپنے دوست کو آواز دیں تو اسے جواب مل گیا اس کے دوست نے اسے بتایا کہ اس کی امانت اس کے گھر میں زمین کے نیچے دفن ہیں کہ وہاں سے جاکر لے لے۔ جاتے جاتے اس شخص نے اپنے دوست سے پوچھا کہ تم تو بہت نیک تھے تو تم یہاں جہنم کا عذاب کیوں ہو بھگت رہے ہو اس کے دوست کی روح نے جواب دیا کہ میں اللہ تعالی کی عبادت تو کرتا تھا لیکن میری ایک بہن تھی جو کہ معذور تھی میں اس کا خیال نہیں رکھ پاتا تھا جس کے بدلے میں اللہ تعالی نے میرے ساٹھ سال کے سارے اعمال ضائع کر دیئے ہیں اور میں عذاب بھگت رہا ہوں اللّٰہ اکبر۔۔ اس کا دوست واپس گیا اور اپنی رقم لینے کے بعد اپنے دوست کی بہن کے پاس گیا اسے کچھ تحائف دیئے اور اس سے درخواست کی کہ وہ اپنے بھائی کو معاف کردے۔اللہ اکبر۔۔
اس واقعے کو یہاں بیان کرنے کا مقصد صرف اتنا ہے حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد بھی نہایت ضروری ہے جنہیں پورا نہ کرنے پر ہم اللہ تعالی کی ناراضگی کو آواز دیتے ہیں۔
اور وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالی اپنے حقوق معاف کردے گا لیکن بندوں کے حقوق معاف نہیں کرے گا تو ایسا بھی کہیں نہیں لکھا اللہ تعالی اپنے اور اپنے بندوں دونوں کے حقوق کے بارے میں باز پرس کریگا ہاں یہ بات صحیح ہے کہ حقوق اللہ میں صرف اللہ سے معافی مانگنا ضروری ہے جبکہ حقوق العباد میں اللہ کے ساتھ بندے سے بھی معافی مانگنا ضروری ہے اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرما رہے ہیں کہ!
جو لوگ گناہ کما رہے ہیں نافرمانیاں کر رہے ہیں عنقریب ہے کہ انہیں اس گناہ کا بدلہ دیا جائے گا۔
اس آیت میں دونوں طرح کے حقوق کی بات کی جارہی ہے حقوق اللہ بھی اور حقوق العباد ہم سے پہلے جو قومیں گزر گئے ان میں سے جن قوموں پر عذاب آئے اس کی وجہ حقوق اللہ بھی تھی اور حقوق العباد بھی اور بعض ایسی تھیں کہ جن پر دونوں کی وجہ سے عذاب آئےجولوگ یہ کہتے ہیں کہ حقوق اللہ کی اہمیت کم ہے اور حقوق العباد کی اہمیت زیادہ ہے تو یہ جملہ بالکل غلط ہے پہلے اللہ کے حقوق آتے ہیں اور پھر بندوں کے حقوق کیوں کہ جس نے ہمیں پیدا کیا جس نے ہمیں بنایا اور جس کے قبضے میں ہماری جان ہے اس کے حقوق زیادہ ضروری ہیں لیکن اگر ان دونوں میں سے ایک بھی پورے نہ کئے جائیں تو انسان گناہ کا حقدار ہوگا۔
جس طرح کوئی انسان کسی کے مال کی حق تلفی کرتا ہے تو وہ دونوں طرح کے گناہ میں آجاتا ہے حقوق العباد کا پورا نہ کرنے میں بھی اور حقوق اللہ کو پورا نہ کرنے میں بھی حقوق العباد کو پورا نہ کرنے میں اس لیے کہ اس نے اس بندے کا حق مارا اور حقوق اللہ کو پورا نہ کرنے میں اس لیے کہ اللہ تعالی نے اس کام کو کرنے سے منع کیا ہے۔اس وقت کے حالات کی سچویشن کو دیکھا جائے تو حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کو پورا کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ اس وقت اللہ کے ان بندوں کی مدد کرنا بھی ضروری ہے جو اس مصیبت کے وقت میں مشکل میں ہیں اور اللہ تعالی کی نافرمانی کر کر جو عذاب ہم پر آیا ہے اس کی معافی کی بھی ضرورت ہے۔ موجودہ صورتحال میں حقوق العباد کو پورا کرنا یہ ہے کہ اگر تم صاحب استطاعت ہیں تو ان لوگوں کی مدد کریں جو اس مشکل وقت میں ایک وقت کی روٹی کے لیے ترس رہے ہیں۔ اور حقوق اللہ یہ ہے کہ اس مشکل وقت میں مسجد بند ہونے کے باوجود ہم گھر میں رہ کر اللہ کی عبادت کریں۔مسئلہ یہ درپیش ہے کے اللہ تعالی نے کہا کہ باجماعت نماز پڑھو لیکن موجودہ صورتحال کی وجہ سے مسجد بند ہیں اور مسجد میں نماز ادا نہیں کی جاسکتی ہے تو کیا یہ حقوق اللہ کی حق تلفی ہے ؟؟ اور اگر ہم مسجد جاتے ہیں گھروں سے باہر نکلتے ہیں اور اس وجہ سے اگر ہمارے درمیان موجودہ وبا پھیلنے لگے اور انسانی جانوں کا ضیاع ہونے لگے تو کیا یہ حقوق العباد کی حق تلفی ہے ؟؟ نماز پڑھنے کا حکم باجماعت ہی ہے لیکن ایسے وقت میں جب مسجد ہے بند ہے تو کیوں نہ ہر گھر کو مسجد بنایا جائے جس گھر میں بھی دو سے تین افراد موجود ہیں یا اس سے زیادہ افراد موجود ہیں تو اپنی جماعت بنا کر نماز ادا کریں اس طرح حقوق اللہ کی بھی حق تلفی نہ ہو گی اور حقوق العباد کی بھی حق تلفی نہ ہو گی۔حقوق اللہ اور حقوق العباد جیسے حقوق کو پورا کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم اسلامی ماہرین دین کے علماء کی باتوں کو سنیں سمجھیں اور ان پر عمل کریں اور ان پر یقین رکھیں۔دوسری جانب ایسے لوگوں پر نظر رکھے جو آپ کے قریب ہو اور ضرورت مند ہو اور آپ ان کی ضرورتوں کو پورا کر سکتے ہوں کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ اردگرد کے لوگوں سے غافل ہو جائیں اور انہیں آپ کی ضرورت ہو۔
0 Comments
kindly do not write spam material.