SABAR AUR ASTAGHFAR KI ZARURAT

جو حالات اس وقت ہم پر آئے ہیں یا جن حالات سے ہم  گزر رہے ہیں وہ ایک امتحان یا آزمائش ہی ہیں لوگ پریشان ہیں لوگ بے چین ہیں کہ اس طرح کا وقت ہم نے کبھی نہیں دیکھا ایسے حالات ہمیں ڈپریشن کی طرف لے کر جاتے ہیں اور ساتھ ساتھ ہمارا صبر بھی آزمایا جا رہا ہے اگر ہم یہ بات سمجھ لیں کے ان حالات میں صبر کا کتنا اجر ہے تو ہماری یہ بیچینی ختم ہوجائے گی اور ہمارا حوصلہ بھی بڑھے گا صحیح بخاری میں صحیح حدیث ہے کہ!
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تعاون پھیل جائے تو جو شخص اپنے گھر میں قرار پکڑے گا صبر کرتے ہوئے اور اللہ سے صبر کی امید کرتے ہوئے تو اسے شہید کا اجر ملے گا۔
علامہ ابن حجر رح فرماتے ہیں کہ اگرچہ وہ اس وباء سے ہلاک نا بھی ہو تو بھی اسے شہید کا اجر ملے گا۔ اللہ اکبر اللہ تعالی نے ان حالات میں بھی ہماری حوصلہ افزائی کی ہے۔ اللہ تعالی اپنے مومن بندوں کو آزماتا ہے اگر ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں صحابہ کرام اور اس دور کے مسلمانوں کا صبر دیکھیں تو ہمارے یہ صبر اس کے آگے کچھ نہیں کہ جب تپتی ریت پر تپتی دھوپ میں سینے پر پھتر رکھ کر کہا جاتا تھا کہ اسلام کو چھوڑ دو اور پھر بھی اسلام اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جان قربان کرنے والے احد احد کا ورد کرتے تھے اپنی جان قربان کرنے کے لیے تیار تھے مگر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی نہیں کرتے تھے تو ہم کیوں اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات نہیں مان رہے  کیوں اپنے گھروں میں قرار نہیں پکڑ رہے اس طرح ہم اپنی جان کے ساتھ ساتھ دوسروں کی جان کر بھی ظلم کر رہے ہیں اور ہمارے انہی رویوں کی وجہ سے مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے کیوں کہ ڈاکٹروں اور ماہرین کی رپورٹ کے مطابق یہ وائرس ایک افراد سے بیس سے تیس افراد کے اندر منتقل ہوتا ہے تو اب سوچیں کہ وہ 20 سے 30 افراد اس وائرس کو کہاں تک لے کر جا سکتے ہیں؟؟ یا اس کے نتائج کتنے حد تک سنجیدہ ہو سکتے ہیں اور اب تو اس بیماری میں جو موت کا تناسب صرف دو فیصد تھا وہ کافی تیزی سے بڑھ گیا ہے  بے شک ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے وقت گزر جائے گا حالات ٹھیک ہوجائیں گے لیکن ہمارے اس صبر کا اجر ہماری سوچ سے زیادہ اللہ تعالی ہمیں دے گا کچھ لوگوں کا اختلاف مصافحہ کرنے سے روکنے پر بھی ہے تو بھائی سلام کرنا واجب ہے مصافحہ کرنا نہیں صحیح مسلم کی ایک حدیث ہے کہ روایت میں آتا ہے کہ!
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حق ہیں پوچھا گیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ کون سے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! جب تم اس سے ملو تو اس کو سلام کرو اور جب وہ تم کو دعوت دے تو قبول کرو اور وہ جب تم سے نصیحت طلب کرے تو اس کو نصیحت کرو اور جب اسے چھینک آئے تو الحمدللہ کہو تو اس کے لیے رحمت کی دعا کرو جب وہ بیمار ہوجائے تو اس کی عیادت کرو جب وہ فوت ہوجائے تو اس کے پیچھے جنازے میں آجاؤ۔
صحیح مسلم کی ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ!
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بنو ثقیف کا ایک وفد آیا جس میں ایک شخص کو جذام کی بیماری تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ملنے سے انکار کردیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم نے تم سے یہی سے بیٹھے بیٹھے بیعت لے لی۔ 
اب یہ بات واضح ہے کہ جس کام سے ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کردیا تو وہ کام ہم کیسے کر سکتے ہیں بے شک حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کون ہوگا جسے اللہ پر توکل ہو۔
تو ان حالات میں جو بھی احکام ہم پر فرض ہے ان پر عمل کرنا بہت ضروری ہے ہم پر لازم ہے۔اور اس صبر کرنے کے سلسلے میں ہمارے لیے بہت بڑا اجر و ثواب ہے۔ 
صحیح بخاری رحمتہ اللہ علیہ کی ایک حدیث ہے جس میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو مصیبت بھی کسی مسلمان کو پہنچتی اللہ تعالی سے اسے گناہ کا کفارہ کردیتا ہے کسی مسلمان کے ایک کانٹا بھی اگر جسم کے کسی حصے میں چبھ جائے۔(5640)
جس طرح اس بیماری میں مومن کیلئے صبر کا اجر موجود ہے اسی طرح جن لوگوں کی وجہ سے یہ بیماری نازل ہوئی ہے ان لوگوں کو چاہیے کہ وہ کثرت سے استغفار کریں لیکن کیا ہم جانتے ہیں کہ ہم میں سے کن لوگوں کی وجہ سے ہم پر یہ بیماری نازل ہوئی ہے ؟ بالکل نہیں کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ اللہ تعالی ہمارے کس عمل سے نہ خوش ہوا ہے تو ان حالات میں صبر اور توبہ اور استغفار  دونوں کی اشد ضرورت ہے۔ 
یعنی کہ جو لوگ مومن ہیں اللہ کی نظر میں ان کے لئے تو یہ آزمائش ہے اور جو لوگ گنہگار ہیں اللہ کی نظر میں ان کے لیے یہ سزا ہے۔ اسی لیے انسانی بقاء کی خاطر ہم پر جو تمام احکام فرض ہیں ان پر عمل کرنا ہمارے لئے نہایت ضروری ہے قوم کے لئے ضروری ہے نیز یہ کہ پوری دنیا کے لئے ضروری ہے۔

Post a Comment

0 Comments