KIYA AAP MOMIN HAIN?

 تمام انسان فطرتا مسلمان ہیں یعنی کہ اللہ تعالی نے تمام انسانوں کو مسلمان ہی پیدا کیا ہے لیکن انہیں الگ الگ مذاہب اور قبیلوں میں بانٹ دیا ہے تو یہ ان کا امتحان ہے کہ وہ اپنے آبائی مذہب اور دین اسلام میں فرق کرتے ہوئے کس کو اپناتے ہیں اس کی مثال خود حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں جن کے والدین کا مذہب اسلام نہیں تھا لیکن اپنی عقل کا استعمال کرتے ہوئے انہوں نے 
 اللہ کی راہ کو ڈھونڈ نکالا اور یقیناً ہم اللہ کی طرف بڑھتے ہیں تو اللہ ہمارے ہر راستے کو اپنے راستے سے جوڑ دیتا ہے۔
 چنانچہ ہم لوگ جو پیدائشی مسلمان ہیں جنہیں اللہ تعالی نے امت مسلمہ میں پیدا کرکے دین کی سمجھ دی ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ ہم یہ جان لیں کے ہم اللہ کے بنائے ہوئے راستے کی سیڑھی کے کس مقام پر ہیں۔


امت مسلمہ ہونے کے ناطے ہم سب مسلمان ہیں لیکن کیا ہم سب مومن بھی ہیں؟ 
(مومن کا مادہ امن ہے اور امن بےخوفی یا اطمینان کو کہتے ہیں قرآن کریم میں متعدد مقامات پر امنتم کےالفاظ آئے ہیں جس کے معنی ہیں کہ جب تم امن میں ہو جاؤ یعنی کہ خوف ختم ہو جائے )
مومن ہونے کے لئے مسلمان ہونا ضروری ہے لیکن ایسا  نہیں کہ ہر مسلمان مومن ہو۔ اگرہم سادہ الفاظ میں بیان کریں تو مسلمان ہونے کے لئے ضروری ہے کہ اللہ اور اس کے دین اور اس کے نبی اور اس کی کتاب اور اس کے فرشتوں اور آخرت کے دن پر اور اچھائیاں برائے کے ہونے پر یقین رکھنا ہے جب کہ کسی بھی مسلمان کے مومن ہونے کا تعلق ان ساری باتوں کو قلب سے ماننے کے ساتھ ان پر عمل کرنا بھی ہے۔ 
 عام طور پر ایک جملہ کہا جاتا ہے کہ ہم اللہ کو مانتے ہیں پر اللہ کی نہیں مانتے اس ایک جملے میں مسلمان اور مومن کے بیچ کا فرق واضع ہے اللہ پر ایمان لانے والا مسلمان ہے لیکن اللہ پر ایمان لانے کے ساتھ اس کے احکامات پر عمل کرنے اور ان کو دل سے تسلیم کرنے والا مومن ہے۔
 مومن اس  کو کہتے ہیں جو خود بھی پرامن ہو اور دوسروں کے بھی امن کی ضمانت دینے والا ہو اور ایسا تب ہی ممکن ہے جب مسلمان اللہ تعالی کی آیات پر ایمان لے آئے کیونکہ اس کے بغیر دلوں کا سکون ممکن نہیں۔

 کامل مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان سلامت رہیں۔ لیکن مومن کے بارے میں فرمایا: 
 ’اَلْمُوْمِنَ مَنْ اٰمَنَ النَّاسَ بِوَائِقَه‘
 مسند ابو داؤد الطیالسی،،رقم:۱۴۳۷،مصنف ابن ابی شیبة،رقم:۲۲ ۲۵۴

یعنی مومن وہ ہے جس کی آفتوں سے لوگ مامون رہیں یعنی اس کی قلبی جلاء کی بناء پر لوگ اس سے خطرہ محسوس نہ کریں ۔ جب کہ المسلم سے صرف ظاہری اذیت ناک پہلوؤں کی نفی کی گئی ہے۔ اگرچہ دل سے لوگ اس سے خطرہ محسوس کرتے رہیں۔

صحابی رسول حضرت وابصہ بن معبد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور ارادہ یہ تھا کہ آج میں آپ سے نیکی اور گناہ کے بارے ایک ایک بات دریافت کروں گا ۔میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بہت سے لوگ موجود ہیں میں نے لوگوں کی گردنوں کو پھلانگنا شروع کر دیا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب ہو سکوں ۔

لوگ میرے آڑے آئے اور کہنے لگے :وابصہ رک جاؤ،یہ طریقہ درست نہیں ہے۔میں نے کہا:میں وابصہ ہوں ۔مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہو لینے دو ۔میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی سے بے انتہاء محبت کرتا ہوں ۔اس لئے قریب ہونا چاہتا ہوں ۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا تو فرمایا:وابصہ قریب آجاؤ ۔وابصہ اور قریب آجا ؤ۔کہتے ہیں کہ میں آپ کے اس قدر قریب ہو کر بیٹھا کہ میرے گھٹنے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھٹنوں سے چھو گئے ۔

پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
وابصہ!میں تمہیں بتاؤں کہ تم مجھ سے کیا دریافت کرنے آئے ہو یا تم ہی مجھ سے پوچھو گے ؟میں نے عرض کی : 

یا رسول اللہ!آپ ہی ارشاد فرمائیں۔ آپ نے فرمایا:
آج تم مجھ سے نیکی اور گناہ کے بارے دریافت کرنے آئے ہو ۔میں نے عرض کی:جی ہاں ۔بالکل یہی بات ہے ۔اس کے بعد آپ نے اپنے دست مبارک کی تین انگلیوں کو ایک ساتھ ملایا اور میرے سینے پر ٹھونکتے ہوئے ارشاد فرمایا:وابصہ!اپنے دل سے فتوی لے لیا کرو۔

نیکی وہ ہے کہ جس سے دل کو اطمینان اور نفس کو سکون ملے اور گناہ وہ ہے جو دل میں خلش پیدا کرے اور سینے میں اضطراب اور پریشانی کا سبب بنے ،خواہ تجھے لوگ فتوی ہی کیوں نہ دیں۔

اس واقعے کو یہاں بیان کرنے کا مقصد یہی ہے کہ آپ کو کو آپ کے مومن ہونے کا ثبوت مل جائے۔اگر دیکھا جائے تو یہ بات اس حدیث سے ثابت ہے کہ جس شخص کو اپنے گناہ کرنے پر شرمندگی ہے اور نیکی کرنے پر سکون ہے وہ مومن ہے۔
اللہ تعالی نے اپنی کتاب قرآن پاک میں مومن اور مسلمان کے بیچ کا فرق واضح طور پر بیان کیا ہے سورہ بقرہ میں اللہ تعالی ارشاد فرما رہے ہیں: 
اور انسانوں میں سے بہت سے وہ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور یومِ قیامت پر ایمان لائے حالانکہ وہ مومن نہیں ہیں۔

 یہاں بات زبانی اقرار اور قلب  اقرار کی ہے یعنی ہم اللہ اور اس کے بنائے ہوئے احکامات اور اصولوں کو زبان سے تسلیم کرتے ہیں کہ ہم ہاں ہم اللہ پر ایمان لائے تو ہم مسلمان ہیں لیکن مومن ہونے کے لیے اتنا کافی نہیں ہے بلکہ ضروری ہے کہ اللّٰہ اور اس کے احکامات کو دل سے تسلیم کریں اور ان پر عمل بھی کریں لیکن اس میں ظاہری عمل کرنا بھی کافی نہیں ہے دل سے تسلیم کر کر عمل کرنا ضروری ہے قرآن اور حدیث ہمیں واضح بیان کر رہے ہیں کہ ہم دین اسلام کے کس درجے پر ہیں؟ 

سورہ حجرات میں فرمایا گیا ہے کہ دیہاتی لوگ (آپﷺ سے) کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے۔ (گویا احسان جتلارہے ہیں کہ ہم تو بڑے جنگ جو تھے، لیکن بغیر لڑائی کے اسلام قبول کرلینا گویا ہمارا احسان ہے، اس لیے ہمیں آپ خیرات دیں) آپ (ﷺ) ان سے کہہ دیجیے: تم (ابھی تک) ایمان نہیں لائے (یعنی دل سے تصدیق نہیں کی، ورنہ کبھی رسول اللہ ﷺ سے ایسا طرزِ تخاطب اختیار نہ کرتے)، بلکہ یوں کہو کہ ہم نے ظاہری طور پر انقیاد قبول کیا ہے، اور ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے۔ 
(الحجرات:14)
 جو  مؤمن ہو وہ مسلم بھی ضرور ہوگا،   لیکن ہر مسلم (ظاہر میں اسلام کا اظہار کرنے والے ) کا مؤمن ہونا لازمی نہیں، کیوں کہ ہوسکتا ہے کہ کوئی ظاہری طور پر زبان سے تو کلمہ اور نماز پڑھتا ہو ، لیکن دل میں کفریہ عقائد رکھتا ہو۔


Post a Comment

0 Comments