اللہ کے نبی ؑ جب بھی دنیا میں آئے، اہل کفر وباطل نے ان کا نہ صرف انکار کیا بلکہ ان کے راستے میں ہرطرح کی رکاوٹیں بھی کھڑی کیں۔ کتنے ہی انبیائے کرام ؑ کو ان کی قوموں نے شہید کرڈالا۔ حضور نبی پاکﷺ کی بھی بہت زیادہ مخالفت کی گئی، اس کے باوجود کئی بار معجزانہ طور پر کفار آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے رعب میں آکر خوف سے کانپ اٹھے۔
رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے معجزات تمام انبیائے کرام علیہمُ الصَّلٰوۃ والسَّلام کے معجزات سے زیادہ ہیں۔ ایک قول کے مطابق ساٹھ ہزار معجزے قراٰنِ کریم میں ہیں جبکہ تین ہزار اس کے علاوہ ہیں۔
(انموذج اللبیب،ص44)
دَرحقیقت سرکارِ نامدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے معجزات بےشمار ہیں۔
(دلائل النبوۃ،ج1،ص18،الشفا،ج1،ص253)
دَرحقیقت سرکارِ نامدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے معجزات بےشمار ہیں۔
(دلائل النبوۃ،ج1،ص18،الشفا،ج1،ص253)
رسول اکرمﷺ نے ہجرت سے پہلے کفار مکہ پر اتمام حجت کے لئے شق قمر کا معجزہ دکھایا۔ قرآن بھی اس کی شہادت دیتا ہے۔
سورہ قمر میں ارشاد ہے:
قیامت نزدیک آ گئی اور چاند پھٹ گیا اور کفار جب کوئی بڑا نشان دیکھیں تو اس سے اعراض ہی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو جادو ہے جو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے‘‘۔ (القمر۱،۲)
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ حضوؐر کے عہد میں چاند دو ٹکڑے ہو گیا، ایک ٹکڑا پہاڑ کے ادھر اور دوسرا اس سے نیچے تھا، اللہ کے رسولؐ نے فرمایا ’’دیکھو گواہ رہنا‘‘۔حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ اہل مکہ نے رسولﷺ سے مطالبہ کیا کہ آپؐ ان کو کوئی بڑا نشان دکھائیں۔ آپؐ نے انہیں چاند کا پھٹنا دکھایا، اس کے دو ٹکڑے تھے ایک حرا کے اس طرف تھا دوسرا اس طرف۔بعض لوگ معجزہ شقِ قمر کا انکار کرتے ہیں لیکن یہ صحیح روایات سے ثابت ہے۔
بحوالہ: صحیح مسلم،صحیح بخاری
سورہ قمر میں ارشاد ہے:
قیامت نزدیک آ گئی اور چاند پھٹ گیا اور کفار جب کوئی بڑا نشان دیکھیں تو اس سے اعراض ہی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو جادو ہے جو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے‘‘۔ (القمر۱،۲)
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ حضوؐر کے عہد میں چاند دو ٹکڑے ہو گیا، ایک ٹکڑا پہاڑ کے ادھر اور دوسرا اس سے نیچے تھا، اللہ کے رسولؐ نے فرمایا ’’دیکھو گواہ رہنا‘‘۔حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ اہل مکہ نے رسولﷺ سے مطالبہ کیا کہ آپؐ ان کو کوئی بڑا نشان دکھائیں۔ آپؐ نے انہیں چاند کا پھٹنا دکھایا، اس کے دو ٹکڑے تھے ایک حرا کے اس طرف تھا دوسرا اس طرف۔بعض لوگ معجزہ شقِ قمر کا انکار کرتے ہیں لیکن یہ صحیح روایات سے ثابت ہے۔
بحوالہ: صحیح مسلم،صحیح بخاری
حضور اکرمؐ کے معجزات میں شفائے امراض کے معجزات بھی شامل ہیں۔
مثلاً غزوہ خیبر میں حضرت سلمہ بن اکوعؓ کی پنڈلی پر زخم آگیا تھا۔ حضوؐر نے تین بار دم کیا اور وہ بالکل اچھا ہو گیا۔
حضرت عبداللہؓ بن عتیک ابورافع یہودی کو کیفرکردار کو پہنچا کر واپس آ رہے تھے کہ پنڈلی کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ حضوؐر نے اپنا دست مبارک پھیرا اور پنڈلی آناً فاناً ٹھیک ہو گئی۔
محمد بن حاطبؓ جب بچے تھے تو ان کا ہاتھ جل گیا، ان کی والدہ آنحضرتؐ کے پاس لے کر آئیں، حضوؐر نے جلے ہوئے ہاتھ پر اپنا دست مبارک پھیرا اور پھر لعاب دہن لگا کر دعا کی وہ اسی وقت اچھا ہو گیا۔
غزوہ خیبر کے موقع پر حضرت علیؓ کا آشوب چشم بھی حضوؐر کے دم کرنے اور لعاب دہن لگانے سے اچھا ہوا تھا۔
سنن ابن ماجہ میں ہے کہ ایک عورت اپنا گونگا بچہ لے کر حجتہ الوداع میں آنحضوؐر کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ حضوؐر نے پانی منگوا کر ہاتھ دھوئے، کْلی کی اور وہ پانی اسے دے کر فرمایا کچھ اس بچے کو پلا دو اور کچھ اس پر چھڑک دو اس روایت کی راوی صحابیہ حضرت اْم جندبؓ فرماتی ہیں کہ اگلے سال اس عورت سے میری ملاقات ہوئی تو اس نے بتایا کہ بچہ اب بالکل تندرست تھا۔
مثلاً غزوہ خیبر میں حضرت سلمہ بن اکوعؓ کی پنڈلی پر زخم آگیا تھا۔ حضوؐر نے تین بار دم کیا اور وہ بالکل اچھا ہو گیا۔
حضرت عبداللہؓ بن عتیک ابورافع یہودی کو کیفرکردار کو پہنچا کر واپس آ رہے تھے کہ پنڈلی کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ حضوؐر نے اپنا دست مبارک پھیرا اور پنڈلی آناً فاناً ٹھیک ہو گئی۔
محمد بن حاطبؓ جب بچے تھے تو ان کا ہاتھ جل گیا، ان کی والدہ آنحضرتؐ کے پاس لے کر آئیں، حضوؐر نے جلے ہوئے ہاتھ پر اپنا دست مبارک پھیرا اور پھر لعاب دہن لگا کر دعا کی وہ اسی وقت اچھا ہو گیا۔
غزوہ خیبر کے موقع پر حضرت علیؓ کا آشوب چشم بھی حضوؐر کے دم کرنے اور لعاب دہن لگانے سے اچھا ہوا تھا۔
سنن ابن ماجہ میں ہے کہ ایک عورت اپنا گونگا بچہ لے کر حجتہ الوداع میں آنحضوؐر کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ حضوؐر نے پانی منگوا کر ہاتھ دھوئے، کْلی کی اور وہ پانی اسے دے کر فرمایا کچھ اس بچے کو پلا دو اور کچھ اس پر چھڑک دو اس روایت کی راوی صحابیہ حضرت اْم جندبؓ فرماتی ہیں کہ اگلے سال اس عورت سے میری ملاقات ہوئی تو اس نے بتایا کہ بچہ اب بالکل تندرست تھا۔
ابن اسحاق نے بیان کیا ہے کہ دشمنِ خدا ابوجہل بن ہشام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سخت دشمنی اور بغض رکھتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ابوجہل کو کئی بار ذلیل ورسوا کیا۔ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات تھے۔ ابن اسحاق نے کہا: مجھ سے عبداللہ بن عبداللہ بن ابوسفیان ثقفی نے بیان کیا اور یہ بہت اچھے حافظے والے بزرگ تھے۔ انہوں نے کہا: ”اراش کی بستی سے ایک شخص اونٹ لے کرمکہ آیا۔ ابوجہل نے اس سے اونٹ خرید لئے، پھر قیمت ادا کرنے سے انکاری ہوگیا۔ اراشی مایوس ہوکر قریش کی مجلس میں آیا اور ان سے مدد مانگی۔ اس نے کہا:” قریش کے لوگو! مَیں ایک اجنبی مسافر ہوں اور ابوالحکم بن ہشام نے میرا حق مار لیا ہے، کون سا شخص مجھے میرا حق دلائے گا“؟ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کے ایک کونے میں تشریف فرما تھے۔
اہل مجلس سبھی منکرین حق تھے۔ انہیں شرارت سوجھی تو انہوں نے اراشی سے کہا: ”کیا تم دیکھ رہے ہو، وہ شخص جو کونے میں بیٹھا ہے، وہی تمہارا حق دلا سکتا ہے“۔ دراصل سردارانِ قریش جانتے تھے کہ ابوجہل حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سخت عداوت رکھتا ہے۔ وہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سبکی چاہتے تھے اور مسافر سے مذاق کررہے تھے۔ اراشی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گیا اور جا کر کہا: ”اے اللہ کے بندے! ابوالحکم بن ہشام نے میرا حق مار لیا ہے اورمَیں اجنبی ہوں۔ ان لوگوں سے مَیں نے پوچھا کہ کون مجھے میرا حق دلا سکتا ہے تو انہوں نے آپ کی طرف اشارہ کیا۔ پس آپ میرا حق دلادیں، اللہ آپ پر رحم کرے“۔
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اسی وقت اٹھ کھڑے ہوئے اور اس کے ساتھ چل دئیے۔ قریش کے لوگوں نے دیکھا تو اپنے میں سے ایک شخص سے کہا: ”اے فلاں ان کے پیچھے جااور دیکھ کر آ، کیا تماشا بنتا ہے“؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اجنبی کو ساتھ لئے ابوجہل کے دروازے پر پہنچے اور دستک دی۔ اس نے پوچھا: ”کون ہے“؟ فرمایا: ”مَیں محمد ہوں، ذرا باہر نکلو“۔ ابوجہل باہر نکلا تو اس کا رنگ اڑا ہوا تھا اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ اس کے جسم میں روح نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا: ”اس شخص کا حق ادا کردو“۔
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اسی وقت اٹھ کھڑے ہوئے اور اس کے ساتھ چل دئیے۔ قریش کے لوگوں نے دیکھا تو اپنے میں سے ایک شخص سے کہا: ”اے فلاں ان کے پیچھے جااور دیکھ کر آ، کیا تماشا بنتا ہے“؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اجنبی کو ساتھ لئے ابوجہل کے دروازے پر پہنچے اور دستک دی۔ اس نے پوچھا: ”کون ہے“؟ فرمایا: ”مَیں محمد ہوں، ذرا باہر نکلو“۔ ابوجہل باہر نکلا تو اس کا رنگ اڑا ہوا تھا اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ اس کے جسم میں روح نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا: ”اس شخص کا حق ادا کردو“۔
ابوجہل نے کہا: ”بہت اچھا! مَیں اس کا حق ابھی ادا کرتا ہوں۔“ گھر کے اندر داخل ہوا، رقم لے کر آیا اور اراشی کے ہاتھ پر رکھ دی۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اراشی سے فرمایا: ”اچھا بھائی خدا حافظ“ اور آپ چل دئیے۔ اراشی قریش کی مجلس کے پاس سے گزرا اور ان سے کہا: ”اللہ تعالیٰ اسے جزائے خیر عطافرمائے، خدا کی قسم! وہ بڑا عظیم آدمی ہے، اس نے مجھے میرا حق دلا دیا“۔
جس شخص کو قریش کے لوگوں نے تماشا دیکھنے کے لئے بھیجا تھا، اس سے انہوں نے کہا: ”تیرا ستیاناس ہو، تُو نے کیا دیکھا“؟ اس نے کہا: ”مَیں نے عجیب ترین معاملہ دیکھا۔ خدا کی قسم جونہی محمد نے اس کے دروازے پر دستک دی اور وہ باہر نکلا تو مَیں نے دیکھا کہ اس کے جسم میں گویا جان ہی نہیں۔ محمد نے اس سے کہا کہ اس شخص کو اس کا حق ادا کردو تو بغیر حیل وحجت کے اس نے اس کا حق ادا کردیا
تھوڑی دیر بعد ابوجہل مجلس میں آپہنچا تو لوگوں نے اس سے کہا: ”تیری تباہی ہوجائے، تجھے کیا ہوگیا تھا؟ خدا کی قسم تو نے جو حرکت کی اس کی تو ہمیں کبھی توقع ہی نہیں تھی“۔ ان کی باتیں سن کر ابوجہل نے کہا:
”تمہاری بربادی ہوجائے، خدا کی قسم! جونہی محمد بن عبداللہ نے میرے دروازے پر دستک دی اور مَیں نے اس کی آواز سنی تو میرے اوپر رعب طاری ہوگیا۔پھر مَیں دروازہ کھول کر باہر نکلا تو کیا دیکھتا ہوں کہ اس کے سر کے اوپر فضا میں ایک سانڈ اونٹ معلق ہے۔ اس اونٹ جیسی کوہان، گردن اور دانت ،مَیں نے کبھی کسی اونٹ کے نہیں دیکھے۔ خدا کی قسم مجھے یوں محسوس ہو ا کہ اگر مَیں نے انکار کیا تو وہ اونٹ مجھے کھا جائے گا“۔ (سیرة ابن ہشام، القسم الاول)
پس سب سے بڑا معجزہ حق تعالیٰ جل شانہ نے آپؐ کو قرآن کریم کا عطا فرمایا، جس کی فصاحت و بلاغت، سلاست و دل آویزی اور لطافت کے مقابلے سے بڑے بڑے فصیح و بلیغ عاجز رہے اور یہی معجزہ کی تعریف ہے کہ جس کے مقابلے سے دنیا عاجز ہو۔ قرآن کریم آپؐ کا سب سے بڑا علمی معجزہ ہے اور تمام حضرات انبیاء علیہم السلام کے معجزات سے بڑھا ہوا ہے۔
پس سب سے بڑا معجزہ حق تعالیٰ جل شانہ نے آپؐ کو قرآن کریم کا عطا فرمایا، جس کی فصاحت و بلاغت، سلاست و دل آویزی اور لطافت کے مقابلے سے بڑے بڑے فصیح و بلیغ عاجز رہے اور یہی معجزہ کی تعریف ہے کہ جس کے مقابلے سے دنیا عاجز ہو۔ قرآن کریم آپؐ کا سب سے بڑا علمی معجزہ ہے اور تمام حضرات انبیاء علیہم السلام کے معجزات سے بڑھا ہوا ہے۔
0 Comments
kindly do not write spam material.