حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ!
مومن کا بہت اچھا حال ہے کہ اللہ جب اسے نعمت بخشتا ہے اور وہ شکر ادا کرتا ہے اس پر بھی اس کو ثواب ملتا ہے اور جب اللہ تعالی اسے آزماتا ہے اور کسی تکلیف میں ڈالتا ہے اور وہ صبر کرتا ہے تو اس پر بھی اس کو ثواب ملتا ہے۔
(صحیح بخاری : 7138)
بے شک اللہ تعالی اپنے بندوں سے بہت محبت کرتا ہے اور اپنے محبوب بندوں کو کسی نہ کسی طرح سے آزماتا ہے کبھی نعمت دے کر تو کبھی نعمت لے کر لیکن ان دونوں حالات میں مومن وہی ہے جو اللہ کے آگے جھک جائے چاہے اسے نعمت عطا کی جائے یا چاہے اسے نعمت سے محروم کردیا جائے۔ایک مومن اور کافر میں اسی بناپر فرق کیا جاتا ہے کہ مومن ہر حال میں اپنے رب کے آگے جھکتا ہے جبکہ کافر کسی بھی نعمت کے پاس ہونے یا اس سے محروم ہونے پر اپنی اکڑ کی وجہ سے کبھی نہیں جھکتا زندگی مسلسل ایک راستے پر نہیں چل سکتی اس کا اصول ہے کہ اس کے راستے تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور یہی راستے کبھی دلفریب منظر پیش کرتے ہیں تو کبھی زندگی کی ہولناکیوں سے آگاہ بھی کرتے ہیں لیکن مومن کبھی ان حالات کی زد میں آکر اپنے رب سے غافل نہیں ہوتا اور حالات کیسے بھی ہوں اپنے رب کو یاد کرتا ہے اور اسی ہی سے فریاد کرتا ہے۔
ایک مومن کے لیے اچھے اور برے دونوں حالات میں امتحان ہی ہے مسرت وشادمانی کی فراوانی ہوتو بھی آزمائش ہے، پریشانیاں اور مشکلات کا سامنا ہو تو بھی آزمائش ہے۔ آپے سے باہر نہ ہونا اور اُمید کا دامن نہ چھوڑنا ایمان کامل کی علامت ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہےکہ!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: موٴمن کی مثال ایسی ہے جیسے کھیت کا سر سبز وشاداب اور نرم ونازک پودا ہو ہوا آئی تو جھک گیا اور جب ہوا تھم گئی تو سیدھا ہو گیا۔ ایسے ہی موٴمن ہے کہ آزمائش آئی تو جھک گیا۔ اور کافر یا فاجر کی مثال صنوبر کے درخت کی سی ہے جو سخت ہوتاہے اور سیدھا رہتاہے۔
لیکن جب اللہ چاہتا ہے تو اُسے جڑ ہی سے اکھاڑ پھینکتاہے۔
(بخاری شریف)
ایک کافر کو اللہ تعالی چاہے کتنی ہی فراوانی میں عطا کرے وہ کبھی بھی اپنے رب کا شکر ادا نہیں کرتا لیکن ایک مومن کی مثال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے نرم و نازک پودے کی طرح دی ہے جو کمزور ہونے کے باوجود تیز ہوا میں جھک جاتا ہے نہ کہ اس تیز ہوا سے لڑنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کے بدلے میں ٹوٹتا نہیں ہے ایسے ہی مومن بھی کسی بھی طرح کی آزمائش میں اپنے رب کی طرف رجوع کرتا ہے اور توبہ اور استغفار کے ذریعے اپنے اوپر آئی ہوئی اس آزمائش کی گرمی کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتا ہے شور شرابےاور جذبات سے کام نہیں لیتا اور اپنے رب کی رضا میں راضی رہتا ہے اور جب اس کا رب سے عطا کرتا ہے تو تب بھی اس کا بدن اکڑتا نہیں بلکہ اپنے رب کی طرف جھکتا ہے۔
جبکہ کافر کی حالت اس صنوبر کے درخت کے جیسی ہے جو کسی بھی طرح کی ہوا میں اپنی یہ اکڑ میں سیدھا کھڑا رہتا ہے اور اس کی اس اکڑ کی وجہ سے اس کے انجام میں صرف گرنا لکھا ہوتا ہے اسی طرح جب کافر کے اوپر اللہ تعالی کوئی آزمائش لے کر آتا ہے تو وہ اللہ کی طرف جھکنے کے بجائے اللہ کی طرف رجوع کرنے کے بجائے اپنی ہی ا کڑ میں رہتا ہے اور مصیبت کے وقت شورووایلا کرتا ہے اس کے عمل کی وجہ سے اللہ تعالی اس پر عذاب نازل کرتا ہے یعنی وہ اپنی اکڑوغرور کے بدلے میں اللہ کے عذاب کا حقدار بن جاتا ہے۔
حضرت لقمان نے اپنے فرزند ارجمند کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
بیٹے یاد رکھو جس طرح آگ میں تپانے سے سونے کا کھرا کھوٹا ہونا معلوم کیا جا تاہے اس طرح مرد موٴمن کو ابتلاء میں ڈال کر جانچا اور پر کھا جاتاہے۔
(امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ : احیاء العلوم )
وہ مومن ہی کیا جس کے ایمان کو طرح طرح کی مصیبتوں اور آزمائشوں سے نہ جا نچا گیا ہوں مومن کی صبر اور شکر کا پتہ ہی جب چلتا ہے جب اسے کسی مصیبت میں ڈالا جاتا ہے اور آتی جاتی مصیبتوں میں اس کا ایمان اور پکا ہو جاتا ہے۔
یعنی اس بات کو سمجھ لیں کہ آفت کوئی بھی ہو وہ ایک مومن کے لیے ہمیشہ اپنے رب کی قربت پانے کا ذریعہ ہوتی ہے اور وہی آفت کافروں کی بربادی کا سبب بن جاتی ہے۔
اللہ تعالی ہم سب کو کسی بھی طرح کی مصیبت میں اپنے آگے جھکنے کی اور صبر کرنے کی کی توفیق دے۔
آمین۔۔
0 Comments
kindly do not write spam material.