امربالمعروف ونہی عن المنکر۔۔۔
اصل میں یہ جملہ ایک دعوت ہے دین اسلام کے ان ماننے والوں اور نیک لوگوں کی طرف سے جو معاشرے میں موجود برائیوں کو بڑھنے سے روکتے ہیں۔
اسلام ایک ایسا دین ہے جس میں اس پر عمل کرنے والوں کے لئے انتہا درجے تک آسانیاں موجود ہیں۔زندگی کا کوئی بھی پہلو ایسا نہیں کوئی حصہ ایسا نہیں جس کے لئے اس میں رہنمائی موجود نہ ہو اسی لیے کہا گیا ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔
آج کل ہمارے معاشرے میں یہ ایک عام سی بات ہوگئی ہے کہ کسی بھی غلط کام کو کرتے ہوئے دیکھ کر کوئی بھی بڑی آسانی سے اسے نظرانداز کردیتا ہے اور ہمارا یہ رویہ معاشرے میں پھیلتی ہوئی برائیوں کی غذا بنتا جارہا ہے جوان برائیوں کی نشوونما میں تیزی سے اضافہ کر رہا ہے۔
برائی سے بچنے کی طاقت اور نیکی کرنے کی قوت میں کمی آتی جارہی ہے کیونکہ ہم برائی کو برائی ماننے سے انکاری ہوگئے ہیں یا پھر اسے ہوتا ہوا دیکھ کر اپنی آنکھیں بند کر لیتے ہیں اور اس برائی کو روکنے کے لیے اپنا حصہ ڈالنے سے قاصر ہو جاتے ہیں۔
اسلام نے جس طرح زندگی کے ہر معاملے میں ہمارے لئے آسانیاں کی ہیں اس طرح برائی سے روکنے میں بھی اسلام نے ہمیں آسانیوں سے آراستہ کیا ہے امر بالمعروف ونہی عن المنکر یعنی کہ بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا اگر اس اصول کو دھیان میں رکھتے ہوئے کام کیا جائے تو معاشرے میں فعل برائی کا خاتمہ ممکن ہے۔
نیکی کا کام کرنا اور برائی سے روکنا یہ ایک فریضہ ہے لیکن جب ہم اس فریضے اور اپنی سوسائٹی میں موجود افراد کے درمیان مقابلہ کریں تو ایسے لوگوں کی بھیڑ مل جاتی ہے جو صرف اس فریضے سے لاپرواہی ہی نہیں برتتے بلکہ اسے حقیر بھی جانتے ہیں اور اپنی معاشرے کے دوسرے لوگوں کے خیالات سے خوف کھاتے ہوئے اس معاملے میں حصہ نہیں لیتے آج اس فریضےکو وہ مقام اور مرتبہ نہیں مل پا رہا جو اس سے ملنا چاہیے یہاں تک کہ ایسے لوگ بھی موجود ہیں کہ جن کے سامنے آپ یہ جملہ عربی میں کہہ دیں یعنی امر بالمعروف والنہی عن المنکر تو انہیں اس بات کا مطلب بھی سمجھ نہیں آئے گا۔
یہی وجہ ہے جو اس فریضہ کو انجام دینے کا خیال لوگوں کے ذہنوں سے کسی پرانی بات کی طرح سے مٹتا جا رہا ہے۔
جبکہ ہمارے اللہ اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فریضے کو انجام دینے کے لئے کس قدر زور دیا ہے اس کا اندازہ ہم صرف قرآن کریم اور احادیث کا مطالعہ کرکے ہی لگا سکتے ہیں۔
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رواہ الترمذی میں روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ۔تمہیں بھلائی کا حکم کرنا ہو گا اور بُرائی سے روکنا ہوگا۔ورنہ بہت ہی قریب ہے یہ بات کہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنی طرف سے عذاب بھیج دے پھر یہ ہو گا کہ تم اس سے دعاء کرو گے اور تمہاری دعا قبول نہ ہوگی ۔
(رواہ الترمذی)
یہ بات یاد رکھیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کوئی بھی صحیح حدیث نظر انداز کرنا فقط ہمارے نقصان کا باعث ہے خواہ وہ اجتماعی ہو یا پھر انفرادی۔ اوپر دی گئی حدیث کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ اس کا آغاز رب زالجلال کی قسم سے ہوا ہے۔اس حدیث میں سادہ الفاظ میں مسلمانوں کو یہ بات بتا دی گئی کہ تم کو ہر حال میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بجا لانا ہوگا۔
قرآن کریم کی سورۃ توبہ میں ارشاد ہوا ہے مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کی رفیق ہیں یہی بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں نماز قائم کرتے ہیں اور زکواۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں یہی لوگ ہیں جن کو اللہ اپنی رحمت سے نوازے گا یقینا اللہ غالب اور حکمت والا ہے۔
آیت : 71
یعنی اس کام کو کرنے والے مومن ہی ہیں خواہ وہ مرد ہو یا عورت ۔
سورۃ آل عمران میں اللہ تعالی فرما رہے ہیں کہ!
تم خیر امت ہو جسے لوگوں کی اصلاح اور رہنمائی کے لئے برپا کیا گیا ہے تم بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
آیت: 110
لیجئے یہاں پر یہ بات بھی واضح کر دی گئی ہے کہ ہم امت ہی وہ ہیں جنہیں خود بھلائی کرنے اور برائی سے روکنے کا حکم دیا گیا ہے۔
لیکن ہم نے تو یہاں برائی کرنے والوں اور برائی سے روکنے والوں کو کلاس ڈیفرنس میں بانٹ دیا ہے اور ہمارے معاشرے میں برائی کرنے والوں کو برائی سے روکنے والے سے زیادہ اہمیت اور رتبہ دیا جاتا ہے۔
ایسا ماحول بنا دیا گیا ہے کہ اگر کوئی نے کام کرنا چاہے تو وہ بھی اس لئے نہیں کرتا کہ وہ بھی کلاس ڈیفرنس کی زد میں آجائے گا۔عباسی کی مثال لے لیجئے کہ کا جب کوئی لڑکی شرعی پردہ کرنے لگتی ہے تو اس معاشرے کے کچھ چھوٹے دماغ کے لوگ پرانے خیالات کے انسان سے تشبیہ دینے لگ جاتے ہیں اور اس پر کنزرویٹیو کا ٹائٹل ٹیگ لگ جاتا ہے بڑی عجیب بات ہے یہ کہ لوگ یہ نہیں سوچتے کہ یہ سب تو ان کے لیے بھی اسی طرح سے فرض کیا گیا ہے
اگر ہمارے دین کے نافذ کردہ احکام کو ماننا قدامت پسندی ہے تو کیا ہمارا دین بھی قدامت پسند ہو گیا ہے؟؟
ہوش کے ناخن لیجئے جناب ہمارا دین تو بنا ہی صدیوں سے برپا کی گئی برائیوں کے خاتمے کے لئے ہے۔
یہاں کچھ ایسا بھی ہے کہ جب ہم معاشرے میں کسی کو کچھ غلط کرتا ہوا دیکھتے ہیں تو ایک فارمیلیٹی کے طور پر ایک یا دو بار منع کرنے کے بعد اس طرف سے بالکل غافل ہوجاتے ہیں اور کیا ہی اچھا ہو جائے گا ہم اس غلط کام کرنے والے کو غلط کام کو چھوڑنے کے لئے بار بار یاد دہانی کروائیں اس سے ہمارے نیک اعمال میں بھی اضافہ ہوگا اور یقیناً میں برائی بھی ختم ہو جائے گی۔
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ امام ابوداؤد رحمۃ اللہ علیہ اور امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے صحابی رسول حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کے حوالے سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ارشاد نقل کیا ہے کہ بنی اسرائیل میں دین میں نقص کا آغاز اس طرح ہوا کہ ان میں سے جب کوئی شخص کسی کو کوئی غلط اور نامناسب کام کرتا ہوا پاتا تو اسے کہتا اللہ سے ڈرو یہ کام جو تم کر رہے ہو اسے چھوڑ دو کیونکہ یہ جائز نہیں ہے۔مگر دوسرے دن سے جب اس اسی کام میں منہمک پاتا تو اسے منع کرنے کے بجائے اس کے ساتھ کھانے پینے اور مجلس میں بیٹھنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتا تھا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالی نے ان کے دلوں کو ایک جیسا کر دیا اور اسی وجہ سے حضرت داؤد علیہ السلام کی زبانوں سے ان پر لعنت ہوئی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تنبیہ کے انداز میں فرمایا!
ہرگز نہیں اللہ کی قسم میں تمہیں بھلائی کا حکم کرنا اور برائی سے روکنا ہوگا تمہیں ظالم کا ہاتھ روک کر اسے حق کی طرف لانا ہوگا اور اسے حق کا پابند کرنا ہوگا۔
0 Comments
kindly do not write spam material.