SAKHT GARMI KA ROZA

پاکستان کے درجہ حرارت 45 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچنے کاامکان ہے صرف یہ ہیں خبر ہم رمضان سے پہلے ہی روزہ لگوانے کے لیے کافی ہوتی ہے جبکہ اب تو باقاعدہ رمضان شروع ہوگئے ہیں اور اسی سلسلے میں روزے میں بھوک اور پیاس سے بچنے کے لئے سحری اور افطاری میں ایسی چیزوں کا اہتمام کیا جاتا ہے اور اتنی مقدار میں سحری اور افطاری کی جاتی ہے کہ روزہ رکھنے پر جو ہمیں فائدہ ہونے والا ہوتا ہے وہ نقصان میں بدل جاتا ہے نئی نئی ٹپس اور ٹوٹکے مارکیٹ میں آ جاتے ہیں جس سے روزہ نہ لگے رات رات بھر جاگ کر دن بھر سو کر اس لیے وقت گزار دیتے ہیں کہ روزے کا وقت کم سے کم رہ جائے کیا اللہ تعالی کو ہمارے اس طرح کے روزے کی ضرورت ہے ؟
جناب جب روزہ لگے گا یہ نہیں تو بھوک پیاس کا احساس کس طرح ہوگا؟ صبر کا امتحان کیسے ہو کر جسم کو فائدہ کیسے پہنچے گا جب تک بھوک نہیں لگے گی تو بھوکوں کی بھوک کا اندازہ کیسے ہوگی جب تک پیاس نہیں لگے گی تو اہل بیت کی اسلام کےلئے اس قربانی کا اندازہ کیسے ہوگا جو انہوں نے اسلام کو بچانے کے لئے کربلا کے میدان میں دیں۔عبادت کا مزہ تو تب ہے جب اللّٰہ کو راضی کرنے کے لیے ایمان اور صبر کی پختگی کا امتحان ہو اور ہم اس میں شرمندہ نا ہوں۔

        حضرت سیِّدُنا ابُودَرْدَاء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرمایا کرتے کہ:
اگر3چیزیں نہ ہوتیں تو میں مَوْت کو ترجیح دیتا۔عرض کی گئی:وہ 3چیزیں کون سی ہیں؟
ارشادفرمایا:دن رات اپنے رَبّ عَزَّ  وَجَلَّ کے حضور سجدے کرنا،سخت گرمی کے دنوں میں پیاسا رہنا(یعنی روزے رکھنا)اوران لوگوں کے حلقوں میں بیٹھناجو کلام کوعمدہ پھلوں کی طرح چُنتے ہیں۔
        حضرت سَیِّدُنا علی المرتضیٰ،شیر خدا کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم ارشادفرماتے ہیں:
مجھے دُنیا میں 3 چیزیں پسند ہیں:اَلضَّرْبُ بِالسَّیْفِ  یعنی تلوار سے جہاد کرنا،اَلصَّوْمُ بِالصَّیْفِ یعنی گرمی کے روزے رکھنااور اِکْرَامُ الضَّیْفِ یعنی مہمان کی مہمان نوازی کرنا۔
الزھد الکبیر للبیہقی،الجزء الخامس، ص۳۲۴، حدیث:۸۷۰

2… روح البیان،پ۲۰،النمل، تحت الآیۃ:۶۲،۶/۲۶۴
اگر ہم اس بھوک اور پیاس کو یاد کریں جو ہمیں روز قیامت سہنی ہے تو ہمیں دنیاوی بھوک اور پیاس کا احساس نہیں ہوگا۔ اگر ہم اس گرمی کے روزے رکھیں گے تو اللّٰہ ہمیں قیامت کی گرمی سے محفوظ رکھے گا اگر ہم اس گرمی کے روزے کی پیاس کو برداشت کریں گے تو اللہ تعالیٰ ہمیں قیامت کی پیاس سے بچائے گا اور موت کے وقت کی پیاس سے بھی۔
تو کیا یہ ہمارے لئے فائدے مند ہیں کہ روزہ جس مقصد کے لئے ہے ہم اسے اس مقصد کیلئے ہی رہنے دیں۔
کہا جاتا ہے کہ ابوبکرؓ گرمیوں میں روزے رکھتے تھے اور سردیوں میں نہیں رکھتے تھے، اور حضرت عمرؓ نے بسترِ مرگ پر اپنے بیٹے عبداللہ کو نصیحت کی کہ ایمان کے خصائص حاصل کرنے کی کوشش کرو۔ اور جس پہلی خاصیت کا انھوں نے ذکر کیا وہ شدید گرمی میں روزہ رکھنا تھا۔ اور القاسم بن محمد روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائشہؓ گرمی میں روزے رکھتی تھیں۔ ان سے پوچھا گیا کہ کیا چیز ان کو یہ کرنے پر اُبھارتی تھی؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ موت سے پہلے ان ایام سے فائدہ اٹھانا چاہتی تھیں۔
(امام ابن رجب حنبلیؒ لطائف المعارف سے انتخاب)
جو لوگ گرمی میں اللہ کے روزہ رکھتے ہیں، اور شدید پیاس کے باوجود صبر کرتے ہیں، اللہ نے جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ان کے لیے متعین کردیا ہے۔ اس دروازے کا نام ریّان ہے اور جو اس دروازے میں داخل ہوگا مشروب پیے گا، کبھی پیاسا نہ ہوگا۔ اور جب صبر کرنے والے اس میں سے گزر جائیں گے تو ان کے بعد اس کو تالا لگا دیا جائے گا۔

Post a Comment

0 Comments