ہزاروں سال پہلے انسانی تخلیق سے قبل دنیا میں جنات کی حکومت تھی خوب نافرمانی اور کفروشرک کا غلغلہ تھا نیکی بہت کم اور بدی بہت زیادہ تھی اس وقت خالق کائنات نے ایک نئی مخلوق پیدا کرنی چاہی اور اس کے متعلق فرشتوں کو خبر دی کہ میں زمین پر اپنا خلیفہ بنانا چاہتا ہوں جو اختیار وارادے کا مالک ہوگا اور میری زمین پر جس قسم کا تصرف کرنا چاہے گا کرسکے گا اور اپنی ضروریات کے لیے اپنی مرضی کے مطابق کام لے سکے گا گویا وہ میری قدرت اور میرے تصرف واختیار کا مظہر ہوگا۔
فرشتوں نے جب یہ سنا تو حیرت میں رہ گئے اورا للہ کے حضور بطور سوال عرض کیا :
اے خدا ئےبے نیاز ! کیا آپ ایسے کو پیدا کرناچاہتے ہیں جو زمین کو فساد اور خونریزی سے بھر دے گا اور فرشتے یہ سمجھے کہ نئی مخلوق بھی جنات کی طرح بے حد سرکش اور نافرمان ہوگی اور انہوں نے اللّٰہ کی بارگاہ میں عرض کی کہ ہم جماعتِ ملائکہ آپ کی تسبیح وتہلیل کے لیے کافی ہیں ۔
اللہ تعالیٰ نے جواب دیا:
آدم ؑ کے پیدا کرنے میں جو جو حکمتیں ہیں تم ان سے واقف نہیں بلکہ ہم ہی خوب جانتے ہیں۔
جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:
(اے ملائکہ) میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔
سورۃ البقرہ
چنانچہ اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا۔
ہم نے انسان کو سڑے ہوئے گارے کی کھنکھناتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا۔
سورۃ الحجر
اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کرنے کے بعد انہیں علم سکھایا۔
اور ( اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ) آدم کو (اللہ نے) سارے نام سکھادیے۔
اور اس کے بعد میں ملائکہ کو حکم دیا کہ وہ ان ساری چیزوں کے نام بتائیں ایسا حکم اللّٰہ تعالٰی نے صرف حضرت آدم علیہ السلام کا اعزاز بڑھانے کے لئے دیا۔
چنانچہ اس عظیم سوال پر سارے فرشتے عاجز ہوئے اور سب نےا نکساری سے عرض کیا !
اے پاک پروردگار! تیری ذات خوب واقف ہے کہ ہم ا ن چیزوں کے نام نہیں جانتے تو بس وہی علم ہے جو تو نے ہمیں عطا کر رکھا ہے یعنی ذکر خدااور تسبیح الٰہی اور فی الحقیقت تو ہی سب چیزوں کا جاننے والا ہے اور بڑا حکمت والا ہے ۔
اس کے بعد اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام سے کہا کہ وہ ملائکہ کو ان چیزوں کے نام بتا دیں جیسے کہ قرآن پاک میں ہے:
اللہ نے کہا :آدم !تم ان کو ان چیزوں کے نام بتادو چنانچہ جب اس نے ان کے نام ان کو بتادیے تو اللہ نے (فرشتوں سے) کہا کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کے بھید جانتا ہوں؟ اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ چھپاتے ہو مجھے اس سب کا علم ہے۔” (البقرۃ: آیت 33)
مختلف مفسرین کی رائے حضرت آدم علیہ السلام کو دیے جانے والے علم کے بارے میں مختلف ہے جیسے کہ
1۔ ایک یہ کہ کائنات کی وہ تمام اشیاء جو ماضی سے مستقبل تک وجود میں آنے والی تھیں ان سب کے نام اور ان کی حقیقت کا علم حضرت آدم ؑ کو دیا گیا ۔
2۔دوسری رائے یہ ہے کہ اس وقت جس قدر اشیاء وعالم کا ئنات میں موجود تھیں ان سب کا علم عطا کیاگیا ۔
3۔ زمین میں رہائش اور یہاں حکومت کرنے کے لیے جس قدر علوم کی ضرورت تھی وہ سب علوم عطا کیے گئے۔طب، انجینئرنگ ، ہندسہ ، سب علوم دیے گئے۔
4۔انسانوں کے اندر غصہ، شہوت، بھوک، حسد، تکبر، الغرض بہت سی باطنی کیفیات واحساسات ہیں جنہیں انسان ہی سمجھ سکتے ہیں، فرشتوں کے اندر وہ فیلنگزیا جذبات نہیں ہیں، اس لیے وہ اس کے نام اور کیفیات بتا بھی نہیں سکتے۔
علم عطا کرنے کے بعد حضرت آدم علیہ السلام کے اعزاز کو اور بڑھا نے کیلئے اللہ تعالی نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کریں تو تمام فرشتوں نے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کیا سوائے ابلیس کے اس کا ذکر قرآن پاک میں بہت جگہ ملتا ہے
آدم علیہ السلام کو سجدہ کروتوفوراً تمام فرشتوں نے تعمیل ارشاد کی اور سجدہ میں گرپڑے۔سوائے شیطان کے وہ سجدے میں نہ جھکا ۔
سورۃ الاعراف
ایک اور جگہ فرمایا کہ:
اللہ نے کہا : ابلیس ! تجھے کیا ہوا کہ تو سجدہ کرنے والوں میں شامل نہیں ہوا؟اس نے کہا : میں ایسا گرا ہوا نہیں ہوں کہ ایک ایسے بشر کو سجدہ کروں جسے تو نے سڑے ہوئے گارے کی کھنکھناتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا ہےاللہ نے کہا : اچھا تو یہاں سے نکل جا، کیونکہ تو مردود ہوگیا ہے۔
سورۃ الحجر
اس کے بعد اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو جنت میں داخل کیا اور آپ علیہ السلام کی دل جوئی اور سکون کے لئے بی بی حوا کو آپ علیہ السلام کے پسلی سے پیدا کیا۔
وہ دونوں خوشی سے جنت میں رہنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تم جہاں جاناچاہو جاسکتے ہو، جو کھانا ہے کھاسکتے ہو، بس ایک درخت کا پھل کھانے کے لیے منع کیا کہ اگر کھاؤ گے تونقصان اٹھاؤگے ۔ابلیس تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ تمہیں جنت سے نکال دے اور تم مصیبت میں پڑ جاؤ ۔
وہ درخت کون سا تھا؟ مشہور ہے کہ وہ گندم کا درخت تھا،ایک قول انگور کا ہے۔اس کے علاوہ بھی اقوال ہیں۔ حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ اس حوالے سے چھ اقوال ملتے ہیں اور سب سے بہترین بات یہ ہے کہ جس چیز کو ذکر کرنے کی اللہ نے ضرورت نہیں سمجھی ہمیں بھی اس کے پیچھے زیادہ نہیں پڑنا چاہیے!
لہذا شیطانی بہکاوے میں آکر آپ علیہ السلام نے وہ پھل کھا لیا جو کہ اللہ تعالی کی ناراضگی کا سبب بنا اور اللہ تعالیٰ آپ علیہ السلام کو جنت زمین پر اتار دیا لیکن یہاں پر یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اللہ تعالی کا حضرت علیہ السلام کو پیدا کرنا انہیں جنت میں مقام دینا اور پھر شیطان کا انہیں بہکانا اور اللہ کا انہیں زمین پر بھیج دینا یہ سب پہلے سے ہی طے تھا اور اسی طرح ہونا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ وہ ممنوع پھل ایک ایسا پھل تھا جسے کھانے سے انسان بے لباس ہو جاتا ہے گویا شیطان نے انسان پر جو پہلا وار کیاہے وہ یہی بے لباسی کا وار تھا۔مسلمانوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ بے لباسی اللہ تعالی کی نظر میں نہ پسندیدہ عمل رہا ہے جبکہ آجکل ہم اس عمل کو مختلف طریقے سے انجام دے رہے ہیں تو سوچے کہ ہم اللہ کی ناراضگی کو کس طرح بڑھا رہے ہیں۔
بے شک انسان خطا کا پتلا ہے ایک ممنوع پھل کھانے سے لے کر اب تک انسان خطاؤں کے کتنے ہی ڈھیر لگا چکا ہے لیکن وہ رب جو ان خطاؤں کے پتلو کا مالک ہے وہ خوب جانتا ہے کہ ان خطاؤں کو کیسے معاف کرنا ہے بے شک وہ نہایت رحیم و کریم ، بڑی بڑائی اور عظمت والا ہیں ہے۔
0 Comments
kindly do not write spam material.