حضرت ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
نبی اکرمﷺ نے فرمایاکہ: صدقہ سے مال میں کمی نہیں ہوتی، اور معافی ودرگزر سے اللہ بندہ کی عزت ہی بڑھاتے ہیں، اور جو کوئی بھی اللہ کے لیے جھکتا ہے اللہ پاک اس کو بلند کردیتے ہیں۔
( الصحیح لمسلم، کتاب البر والصلة، باب استحباب العفووالتواضع، رقم الحدیث: ۲۵۸۸، ط: دارالفکر بیروت، لبنان)
جناب اس حدیث کو یہاں بیان کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ آپ کو اس بات کا اندازہ ہوجائے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کی جانے والی کوئی بھی چیز کم نہیں ہوتی بلکہ اس میں برکت ہی ہوتی ہے پھر چاہے وہ اللّٰہ کا دیا ہوا مال ہو یا پھر اس کی دی ہوئی عزت۔
جناب اس حدیث کو یہاں بیان کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ آپ کو اس بات کا اندازہ ہوجائے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کی جانے والی کوئی بھی چیز کم نہیں ہوتی بلکہ اس میں برکت ہی ہوتی ہے پھر چاہے وہ اللّٰہ کا دیا ہوا مال ہو یا پھر اس کی دی ہوئی عزت۔
حال ہی میں ایک واقعہ رونما ہوا جس میں ایک معزز مولانہ صاحب نے اپنی قوم کی رہنمائی کیلئے انہیں آئینہ دکھانے کی کوشش کی لیکن اس کے بعد انہیں اس قدر تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ انہوں نےاگلے دو دن میں ہی معافی کی درخواست بھی کی اور اس تنقید کی بڑی وجہ فرقہ وارانہ شدت پسندی تھی۔
لیکن جیسے کے اوپر دی گئی حدیث میں لکھا ہے اور جو کوئی بھی اللہ کے لیے جھکتا ہے تو اللہ پاک اسے بلند کردیتے ہیں مولانا صاحب کی معافی اور جھکاؤ نے یقیناً لوگوں کے دلوں میں ان کی اور عزت بڑھا دی ہے۔
جی بالکل یہاں پر مولانا طارق جمیل صاحب کی بات کی جارہی ہے لیکن ان کی بات یہاں کسی فرقے سے تعلق رکھنے کی بنا پر نہیں بلکہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے کی جارہی ہے۔
فرقے اور مسلک یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک کی پیداوار نہیں ہے بلکہ یہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد وجود میں آئے کسی بھی مسلک کا حصہ ہونے سے پہلے ہم سب مسلمان ہیں میرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو کبھی کسی دوسرے مذہب پر تنقید نہیں کی لیکن آج کا مسلمان اپنے ہی مذہب میں اپنے ہی مسلمان بھائیوں پر اس انتہا کی تنقید کرتا ہے کہ اس میں نفرت کا عنصر بھی واضح نظر آتا ہے یقیناً ہم فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں لیکن تعلق تو ایک ہی مذہب سے رکھتے ہیں۔
ہم فرقہ واریت میں شدت پسندی کی اس انتہا کو پہنچ گئے ہیں کہ کسی بھی مذہبی مسئلہ میں اپنے فرقے کو منوانے کے لئے اس حد تک پہنچ جاتے ہیں کہ گالی گلوچ بھی کردیتے ہیں اور کبھی کبھی تو ایک ہی مذہب سے تعلق رکھنے کے باوجود ایک دوسرے کو کافر بھی کہ دیتے ہیں۔
قرآن کریم فرقان حمید میں ارشاد ہے کہ:
اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور آپس میں تفرقہ نہیں بناؤ۔
(سورۃ آل عمران :103)
اس کے باوجود اگر علمائے کرام ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے بھی ہیں تو بحیثیت مسلمان کیا ہمارے لیے یہ جائز ہے کہ ہم اپنے ہی مسلمان بھائی کو کافر کہیں،اسے گالی دیں۔
اپنے فرقے کو اونچا ثابت کرنے میں ہم اس حد تک آگے نکل جاتے ہیں کہ اپنے مذہب کے بنائے ہوئے دائرے سے بھی خارج ہوجاتے ہیں۔
اسلام سے تعلق رکھنے کی وجہ سے ہر فرقے میں اچھی باتیں موجود ہیں تو ہم ان اچھی باتوں کو دبا کر منفیات کو فروغ کیوں دے رہے ہیں؟
اسلام کا لغوی مفہوم ہی سلامتی، امن، سکون اور تسلیم و رضا ہے۔ امن و سکون مہذب انسانی معاشرے کی اعلیٰ خصوصیت ہے۔
جس دین کا مفہوم ہی سلامتی امن سکون اور تسلیم و رضا ہے کیا وہ ہمیں آپسی سے جھگڑوں کی اجازت دیتا ہے ہمارا دین ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ہم فرقہ واریت کے نام پر امن و سکون کو خراب کریں۔
ہمارے وہ علمائے کرام جو ہمارے ہی مذہب میں ہماری رہنمائی کے لئے کوششیں کرتے ہیں ہم ان پر ہی یقین نہ کرتے ہوئے انھیں ہی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں کیا ہم خود مسلمان ہونے کے باوجود اچھائی برائی میں فرق نہیں کرسکتے؟
شدت پسندی اور انتہا پسندی جہاں بھی اور جس بھی معاملے میں ہو گی اس کا انجام انتہائی خطرناک، مہلک اور عبرتناک ہو گا۔ اس لئے دینِ فطرت ہمیں انفرادی، قومی اور بین الاقوامی سطح کے جملہ معاملات میں توازن و اعتدال برقرار رکھنے کا سختی سے حکم دیتا ہے۔
گر ہم طبیعت، مزاج اور زاویہ نگاہ میں اعتدال اور میانہ روی لائیں اور ایک دوسرے کی بات کو خندہ پیشانی اور تحمل سے سننے اور برداشت کرنے کی خو پیدا کر لیں تو تضاد اور مخاصمت کی فضا کی جگہ باہمی موافقت و یگانگت اور محبت و مروت ہماری زندگیوں میں آجائے گی نفرت کی وہ دیوار ہمارے درمیان سے ہٹ جائے گی جو ملی اتحاد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اگر مذہبی رواداری اور تحمل و بردباری ہمارا شیوہ بن جائے تو بہت سے مسلکی فروعی اختلافات ختم یا کافی حد تک کم ہو سکتے ہیں ان اقدامات سے امتِ مسلمہ کے اندر تباہ کن انتشار و افتراق کا یقینی خاتمہ ہو جائے گا اور امت مسلمہ کو فرقہ واریت کی لعنت میں مبتلا دیکھنے والی طاقتوں کے عزائم خاک میں مل جائیں گے۔
اور جہاں تک بات ہے مولانا صاحب کی تو اگر ان کی جگہ کسی اور مسلک سے تعلق رکھنے والے کوئی اور دینی رہنما ہوتے تو ان کے مخالف فرقے سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی ہیں اسی طرح تنقید کا نشانہ بناتے ہم اپنے ہی دینی رہنماؤں اور علماؤں جو ہماری دینی اور دنیاوی دونوں معاملات میں رہنمائی کرتے ہیں ان پر یقین نہیں رکھتے اور جہالت کا ثبوت دیتے ہوئے کسی بھی بات کو سمجھنے کے بجائے اسے اپنا ہی رنگ دے کر تماشا بناتے ہیں کیونکہ باحیثیت قوم ہم سدھرنا ہی نہیں چاہتے۔
لیکن جیسے کے اوپر دی گئی حدیث میں لکھا ہے اور جو کوئی بھی اللہ کے لیے جھکتا ہے تو اللہ پاک اسے بلند کردیتے ہیں مولانا صاحب کی معافی اور جھکاؤ نے یقیناً لوگوں کے دلوں میں ان کی اور عزت بڑھا دی ہے۔
جی بالکل یہاں پر مولانا طارق جمیل صاحب کی بات کی جارہی ہے لیکن ان کی بات یہاں کسی فرقے سے تعلق رکھنے کی بنا پر نہیں بلکہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے کی جارہی ہے۔
فرقے اور مسلک یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک کی پیداوار نہیں ہے بلکہ یہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد وجود میں آئے کسی بھی مسلک کا حصہ ہونے سے پہلے ہم سب مسلمان ہیں میرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو کبھی کسی دوسرے مذہب پر تنقید نہیں کی لیکن آج کا مسلمان اپنے ہی مذہب میں اپنے ہی مسلمان بھائیوں پر اس انتہا کی تنقید کرتا ہے کہ اس میں نفرت کا عنصر بھی واضح نظر آتا ہے یقیناً ہم فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں لیکن تعلق تو ایک ہی مذہب سے رکھتے ہیں۔
ہم فرقہ واریت میں شدت پسندی کی اس انتہا کو پہنچ گئے ہیں کہ کسی بھی مذہبی مسئلہ میں اپنے فرقے کو منوانے کے لئے اس حد تک پہنچ جاتے ہیں کہ گالی گلوچ بھی کردیتے ہیں اور کبھی کبھی تو ایک ہی مذہب سے تعلق رکھنے کے باوجود ایک دوسرے کو کافر بھی کہ دیتے ہیں۔
قرآن کریم فرقان حمید میں ارشاد ہے کہ:
اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور آپس میں تفرقہ نہیں بناؤ۔
(سورۃ آل عمران :103)
اس کے باوجود اگر علمائے کرام ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے بھی ہیں تو بحیثیت مسلمان کیا ہمارے لیے یہ جائز ہے کہ ہم اپنے ہی مسلمان بھائی کو کافر کہیں،اسے گالی دیں۔
اپنے فرقے کو اونچا ثابت کرنے میں ہم اس حد تک آگے نکل جاتے ہیں کہ اپنے مذہب کے بنائے ہوئے دائرے سے بھی خارج ہوجاتے ہیں۔
اسلام سے تعلق رکھنے کی وجہ سے ہر فرقے میں اچھی باتیں موجود ہیں تو ہم ان اچھی باتوں کو دبا کر منفیات کو فروغ کیوں دے رہے ہیں؟
اسلام کا لغوی مفہوم ہی سلامتی، امن، سکون اور تسلیم و رضا ہے۔ امن و سکون مہذب انسانی معاشرے کی اعلیٰ خصوصیت ہے۔
جس دین کا مفہوم ہی سلامتی امن سکون اور تسلیم و رضا ہے کیا وہ ہمیں آپسی سے جھگڑوں کی اجازت دیتا ہے ہمارا دین ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ہم فرقہ واریت کے نام پر امن و سکون کو خراب کریں۔
ہمارے وہ علمائے کرام جو ہمارے ہی مذہب میں ہماری رہنمائی کے لئے کوششیں کرتے ہیں ہم ان پر ہی یقین نہ کرتے ہوئے انھیں ہی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں کیا ہم خود مسلمان ہونے کے باوجود اچھائی برائی میں فرق نہیں کرسکتے؟
شدت پسندی اور انتہا پسندی جہاں بھی اور جس بھی معاملے میں ہو گی اس کا انجام انتہائی خطرناک، مہلک اور عبرتناک ہو گا۔ اس لئے دینِ فطرت ہمیں انفرادی، قومی اور بین الاقوامی سطح کے جملہ معاملات میں توازن و اعتدال برقرار رکھنے کا سختی سے حکم دیتا ہے۔
گر ہم طبیعت، مزاج اور زاویہ نگاہ میں اعتدال اور میانہ روی لائیں اور ایک دوسرے کی بات کو خندہ پیشانی اور تحمل سے سننے اور برداشت کرنے کی خو پیدا کر لیں تو تضاد اور مخاصمت کی فضا کی جگہ باہمی موافقت و یگانگت اور محبت و مروت ہماری زندگیوں میں آجائے گی نفرت کی وہ دیوار ہمارے درمیان سے ہٹ جائے گی جو ملی اتحاد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اگر مذہبی رواداری اور تحمل و بردباری ہمارا شیوہ بن جائے تو بہت سے مسلکی فروعی اختلافات ختم یا کافی حد تک کم ہو سکتے ہیں ان اقدامات سے امتِ مسلمہ کے اندر تباہ کن انتشار و افتراق کا یقینی خاتمہ ہو جائے گا اور امت مسلمہ کو فرقہ واریت کی لعنت میں مبتلا دیکھنے والی طاقتوں کے عزائم خاک میں مل جائیں گے۔
اور جہاں تک بات ہے مولانا صاحب کی تو اگر ان کی جگہ کسی اور مسلک سے تعلق رکھنے والے کوئی اور دینی رہنما ہوتے تو ان کے مخالف فرقے سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی ہیں اسی طرح تنقید کا نشانہ بناتے ہم اپنے ہی دینی رہنماؤں اور علماؤں جو ہماری دینی اور دنیاوی دونوں معاملات میں رہنمائی کرتے ہیں ان پر یقین نہیں رکھتے اور جہالت کا ثبوت دیتے ہوئے کسی بھی بات کو سمجھنے کے بجائے اسے اپنا ہی رنگ دے کر تماشا بناتے ہیں کیونکہ باحیثیت قوم ہم سدھرنا ہی نہیں چاہتے۔
اِنَّ اللّٰہَ لایُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوا مَا بِأنفُسِہِمْ وإذَا أرَادَ اللّٰہُ بَقَوْمٍ سوئًا فَلاَ مردَّ لَہٗ ومَالَہُمْ مِنْ دُوْنہٖ مِن وَال
(رعد:۱۱)
ترجمہ: بیشک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا؛ جب تک وہ خود اپنے آپ کو نہ بدل ڈالے اور جب اللہ کسی قوم کو برے دن دکھانے کا ارادہ فرماتا ہے تو پھر اُسے کوئی ٹال نہیں سکتا اور اللہ کے سوا ایسوں کا کوئی بھی مددگار نہیں ہوسکتا۔
(رعد:۱۱)
ترجمہ: بیشک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا؛ جب تک وہ خود اپنے آپ کو نہ بدل ڈالے اور جب اللہ کسی قوم کو برے دن دکھانے کا ارادہ فرماتا ہے تو پھر اُسے کوئی ٹال نہیں سکتا اور اللہ کے سوا ایسوں کا کوئی بھی مددگار نہیں ہوسکتا۔
0 Comments
kindly do not write spam material.