SIDDIQU_E_AKBAR (R.Z) KY KARNAMY

صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کا پورا نام ابو بکر عبد اللہ بن عثمان ابو قحافہ رضی اللہ تعالی عنہ ہے آپ رضی اللہ تعالی عنہا قریش کی ایک شاخ بنی تمیم میں سے تھے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابتدا ہی سے بڑے سلیم الفطرت اور راست باز تھے چناچہ زمانہ جاہلیت میں بھی انہوں نے اپنا دامن ہر قسم کے آلائشوں سے پاک رکھا تھا۔
آپ رضی اللہ تعالی عنہ صاحب دولت و حیثیت تھے۔ آپ کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ مردوں میں سب سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور آخری دم تک رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دست و بازو بنے رہے اسی وجہ سے صدیق کا لقب ملا اسلام کے لئے اپنے جان و مال کی بے نظیر قربانیاں پیش کیں کئی موقعوں پر گھر کا سارا اثاثہ دین کی خاطر نثار کر دیا۔
حجرت کی کٹھن منازل میں پورے خلوص کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے اور یار غار کا اعزاز پایا۔مدینہ منورہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے رفیق کارومشیرخاص رہے کم و بیش تمام غزوات میں شریک ہوئے اور جانثاری کے جوہردکھائے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دوران علالت امامت کے فرائض آپ ہی کو سونپے گئے یہ ایک طرف اشارہ تھا آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی جانشینی کی طرف۔
ابھی حضور صلی علیہ وسلم کے جسد مبارک کو سپردخاک بھی نہیں کیا گیا تھا کہ جانشینی کا جھگڑا اٹھ کھڑا ہوا اور اس نے ایسی نازک صورتحال اختیار کر لی کہ اگر اس کا فوری طور پر کوئی تو حل نہ کیا جاتا تو نہ جانے کیا گل کھلتا اور کوئی بعید نہ تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے ساتھ ہی ملت کا شیرازہ بھی ہمیشہ کے لئے درہم برہم ہو جاتا۔
واقعہ کچھ یوں تھا کہ انصار مدینہ دو قبیلوں پر مشتمل تھے اوس اور خزرج اوس کے مقابلے میں خزرج کی تعداد زیادہ تھی اس کے سردار سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالی عنہ کے مکان کے ساتھ ایک سائبان بنا ہوا تھا جس کو سقیفہ بنی ساعدہ کہتے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کا اعلان ہوا تو انصاری سقیفہ بن ساعدہ میں جمع ہوئے اور جانشینی کا دعوی کیا ان کا رحجان سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالی عنہ کے انتخاب کی طرف تھا سعد رضی اللہ تعالی نے پرجوش تقریر میں انصار کی اسلامی خدمات گنوا کر کہا کہ امارت صرف ہمارا ہی حق ہے اور یہ حق ہم ہر قیمت پر لے کر رہیں گے اور معاملہ کچھ یوں ہوا کہ انصار کے جتنے بھی سردار تھے انہوں نے اس دعوے کی تصدیق کی۔ 
اتنے میں مجمع میں بیٹھے انہی کے ایک انصاری نے یہ کہا کہ جو لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکے سے مدینے ہجرت کرکے آئے تھے اگر ان میں سے کسی نے قرابت داری کی بنا پر اپنا حق سمجھا تو انہیں کیا جواب دوگے؟اسی مجموعے میں بیٹھے کسی دوسرے انصاری نے کہا کہ اگر ایسی صورتحال پیدا ہوگئی تو ہم کہیں گے دو امیر منتخب کر لیے جائیں قریش (جو ہجرت کرکے آئے) میں سے اور دوسرا انصار میں سے.
اسی دوران یہ خبر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ تک پہنچ گئی آپ کو خدشہ لاحق ہوا کہ انصار کی یہ روش کوئی فتنہ نا کھڑا کردے۔ چنانچہ آپ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالی عنہ کو ساتھ لے کر فورا سقیفہ بنی ساعدہ میں پہنچ گئےحضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ چاہتے تھے کہ وہ کچھ کہیں  مگر موقع کی نزاکت کے پیش نظر آپ نے ان کو روک دیا اور خود کھڑے ہوکر بڑے باوقار اور نرمی کے ساتھ مختصر تقریر فرمائی کہ:
ہمیں تمہارے فضائل و مناقب اور خدمات اسلامی کا پورا پورا اعتراف ہے لیکن بدوی قبیلے قریش کے علاوہ کسی اور خاندان کی امارت کو تسلیم نہیں کریں گے اس لئے بہتر یہ ہے کہ امیر مہاجرین میں سے ہو نیز تمہارے دونوں قبیلوں اوس اور خزرج میں بالعموم باہمی رنجش رہتی ہے اگر خلیفہ بنی خزرج سے ہوا تو اوس اس کی رقابت کی آگ میں جلتے رہیں گے اگر بنی اوس میں سے ہوا تو خزر ج سازشیں کرتے رہیں گے اس لئے مناسب یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہم امیرہوں اور تم مشیر تمہارے مشورے کے بغیر معاملات طے نہیں کیے جائیں گے۔
لیکن ان ساری اس بات کو ماننے سے انکاری تھے اور ان کا مطالبہ یہی تھا کہ امیر دو منتخب ہوں اور انصار کا یہ مطالبہ مان لینے کا مقصد صرف یہی تھا کہ خود اپنے ہاتھوں سے اسلامی نظام درہم برہم کردیا جائے۔
چنانچہ اس مطالبے پر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اور احباب میں سخت کلامی ہونے لگے جس پر حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ تعالی عنہ نے انصار کو مخاطب کر کہا:
 تمہیں سب سے پہلے اسلام کے پشت پناہ تھے اب اس کی تخریب میں تمہیں سبقت نہیں کرنی چاہیے۔ 
 اس فقرے نے انصار پر بہت اچھا اثر کیا اور انصار کے مجموعے میں سے ہی بشیر بن سعد انصاری کھڑے ہوئے اور کہا کہ انصار ہم نے سلام کا بول بالا کرنے کے لئے جو کچھ کیا ہے وہ صرف اطاعت رسول اور رضا الہی کے لئے تھا یہ مناسب نہیں کہ ہم صرف متائے دنیا کے خواہشمند ہوں ہمیں اجر دینے والا اللہ تعالیٰ ہے خلافت کے مستحق تم میں سے زیادہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم ہوسکتی ہے تم لوگ اللہ کا خوف کرو اور مخالفت سے باز آجاؤ۔ 
 اس تقریر سے انصار کا جوش و خروش ٹھنڈا پڑ گیا اور خاموش ہوگئے یہ کیفیت دیکھی تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ عمر رضی اللہ تعالی عنہ اور ابو عبیدہ رضی اللہ تعالی عنہ یہیں موجود ہیں ان میں سے جسے تم پسند کرو اس کےہاتھ پر بیعت کر لو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک زبان کہا کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ ہم میں سب سے افضل اور محترم ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ مقرب ہیں ایسا کون شخص ہے جو آپ پر مقدم ہو اور آپ کے ہوتے ہوئے خلافت کا متولی بنے یہ کہتے ہوئے دونوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کر لی جیسے یہ خبر باہر پہنچی تو سب لوگ بہت خوش ہوئے اور دوڑ کر آپ کی بیعت کرنے لگے امیر کا انتخاب عرب کے جمہوری طریقے کے مطابق ہوا تھا مگر سعد بن عبادہ نے بیعت نہ کی حضرت صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے ان سے کوئی اعتراض نہ کیا کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت تھی کہ انصار کی خطاؤں کو معاف کر دینا۔
 شروع میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے بھی بیعت نہیں کی تھی مگر چھ ماہ بعد جب حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ تعالی عنہ کا انتقال ہوگیا اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ تعزیت کے لیے آپ کے ہاں تشریف لے گئے تو بیعت کا مسئلہ زیر بحث آیا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ مجھے آپ سے کوئی کدورت نہیں مگر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت داری کے باعث خلافت کو اپنا حق سمجھتا ہوں۔اس پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا خدا کی قسم میں رسول خدا کے رشتہ داروں سے زیادہ عزیز سمجھتا ہوں اس قسم کی کچھ اور باتیں بھی ہوئی جن سے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا دل صاف ہو گیا اور انہوں نے آپ کی بیعت کرلی۔
 یہ بات یاد رکھیں کہ بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عمر بھر کبھی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی بیعت نہیں کی مگر یہ خیال تاریخی حقائق کے منافی ہے۔
 منصب خلافت پر فائز ہو جانے کے بعد اکثر لوگوں کا خیال تھا کہ صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کو خلیفتہ اللہ کے لقب سے پکارا جایا کرے مگر آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ وہ خلیفہ اللہ نہیں خلیفتہ رسول کہا جائے۔
 اگلے روز مسجد نبوی میں عام بیعت ہوئیں اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے خطبہ دیا جس میں اس امر پر خاص زور دیا کہ!
  اگر میں اچھا کام کرو تو مجھے مددو غلط رویہ اختیار کرو تو میری اصلاح کرو جب تک میں خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو میری اطاعت تم پر واجب ہے اور اگر ان کی نافرمانی کروں تو تم ہرگز میرے احکام کی تعمیل نہ کرو۔
  حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہا نہایت نرم دل انکسار پسند اور پرہیزگارتھے عبادت گزار اتنے کے رات قیام میں اور دن روزہ میں گزر جاتے دنیا سے کبھی دل نہ لگایا اور آخرت کا خوف ہمیشہ غالب رہتا  خلیفہ بن جانے کے بعد بھی پوری تندہی سے یتیموں اور بے کسوں کی خدمت کرتے رہے کسی کی بکریوں کا دودھ دوہتے کسی کے اونٹ چراگاہوں میں لے جاتے طبیعت میں سادگی اور فقر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔
  حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ!
  میں نے ہر شخص کے احسان کا بدلہ دنیا میں ادا کر دیا ہے لیکن ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہا کے احسانات مجھ پر باقی ہیں ان کا بدلہ قیامت کے روز اللہ تعالی دے گا۔
  حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کا بہت بڑا کارنامہ قرآن مجید کا یکجا کرنا ہے ان کے عہد میں لڑائیوں میں بہت سے حافظ قرآن صحابہ شہید ہوگئے اس سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کو فکر لاحق ہوئی کہ کہیں قرآن کا کوئی حصہ ضائع نہ  حضرت عمر رضی اللہ تعالی نے آپ کو مشورہ دیا کہ جلد از جلد تمام اجزاء کو اکٹھا کرکے کتابی شکل میں مرتب کیا جائے یقینا قرآن کریم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں مکمل طور پر نازل ہو چکا تھا لیکن اس کے مختلف حصے صحابہ نے کاغذ کے اوراق کھجور کے پتوں چمڑے یا پتھر کے ٹکڑوں پرلکھ رکھے تھے اس طرح چند ایک کے پاس پورا قرآن جمع تھا اور اکثر کو تمام حفظ تھا  حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سورتوں کی ترتیب بھی ہوچکی تھی اور ان کے نام بھی موجود تھے لیکن اسے ایک مکمل کتابی شکل حاصل نہ تھی چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت زید بن ثابت کاتب وحی کو تدوین کا کام سپرد کر دیا وہ خود بھی حافظ تھے لیکن انہوں نے مسجد نبوی میں اعلان کرکے جن صحابی کے پاس مختلف اجزاء تھے سب اکھٹے کرلئے اور پھر انتہائی محنتسے اس پورے قرآن کو سپاروں کی صورت میں کاغذ پر لکھ کر پہلا مکمل کتابی نسخہ تیار کیا جو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہا کی ذاتی تحویل میں تھا ان کی وفات کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس محفوظ رہا اور انہوں نے مرنے سے پہلے اپنی بیٹی ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہ کے حوالے کردیا۔
  حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اسلام اور مسلمان کی وہ خدمات سرانجام دیں جو آنے والے خلفاء کے لیے نمونہ بھی آپ رضی اللہ تعالی عنہ عام زندگی میں جس قدر نرم دل اور منکسر المزاج تھے اسلام کی حفاظت میں اسی قدر مستقل مزاج اور سرفروش ثابت ہوئے تمام مشکلات کے باوجود آپ کبھی مرعوب نہیں ہوئے اور کسی بھی حالت میں ارکان دین پر آنچ نہ آنے دی آپ رضی اللہ تعالی عنہا تمام دشمنوں اور باغیوں پر غلبہ پانے میں کامیاب ہوئے اور تمام ملک عرب اسلامی قیادت کے جھنڈے تلے متحد ہو گیا۔ان حالات کے پیش نظر اگر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کو اسلامی حکومت کا دوسرا بانی کہہ دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔
  

Post a Comment

1 Comments

  1. Hi there.
    I hope you are good. If you want more profile views and more traffic on your blog then don't worry. I've a very good and cheap offer for you. Contact me via email
    alishoy91@gmail.com

    ReplyDelete

kindly do not write spam material.