JANNAT KAISY KAMAYEN..

مغربی رنگ میں ڈھلتا اپنے رہن سہن کو بھولتا مسلمان اپنی اسلامی روایتوں کو بھولتا جا رہا ہے جبکہ اسلامی روایات کا تحفظ انسانی فلاح و بہبود کا اعلیٰ ترین تحفظ ہے آج کا مسلمان اپنی اسلامی روایتوں سے اس طرح دور ہوتا جا رہا ہے کہ زندگی کے ہر پہلو میں اسلامی روایات سے پہنچنے والے فائدے سے بھی محروم ہو گیا ہے۔ ہمیں اس بات کا اندازہ ہی نہیں کہ اللّٰہ ہمیں کس کس طرح معاف کرنا چاہتا ہے مسلمانوں کے ہر عمل میں اللہ تعالی نے بخشش رکھی ہے اگر وہ نیک نیتی سے کیے جائیں۔ایسا ہی کچھ معاملہ اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کی سلسلے میں اللہ تعالی نے بنایا ہے لیکن آج کے مسلمان کے لئے عیادت صرف فون کالز یا میسجز تک رہ گئی ہے وہ بھی صرف ان لوگوں کے لئے جن سے قرابت داری زیادہ ہو۔
خودگرضی مفاد پرستی کہ اس دور میں ہرطرف نفسانفسی کا عالم ہے کہنے کو تو یہ ایک ترقی یافتہ دور ہے لیکن جتنی تیزی سے ہم ترقی کی سیڑھی کو چڑھتے جارہے ہیں اتنے ہی تیزی سے ہم انسانیت کی سیڑھی سے نیچے اتر رہے ہیں اپنی دنیا میں مگن خود سے جڑے رشتوں سے لاتعلق ہوتے جا رہے ہیں اور ساتھ ساتھ معاشرتی حقوق سے بھی غافل ہوتے جا رہے ہیں جبکہ ایک اہم فریضہ بھی ہم سے باندھا گیا ہے۔
سماجی اور انفرادی طور پر اپنے بیمار مسلمان بھائی کی عیادت کرنے کے فوائد احادیث سے ثابت ہیں اور یہ بات بھی ثابت ہے کہ اللہ کے نزدیک یہ معاملہ نہایت ہی اہم ہے۔
بیمار کی عیادت کرنا سنت ہے
اور احادیث طیبہ میں اس کی بڑی فضیلت آئی ہے۔چنانچہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
رسول اللہ ﷺنے ارشاد فر مایا کہ:جس شخص نے اچھی طر ح وضو کیا اور ثواب کی نیت سے اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کے لئے گیا ،اسے ستر سال کی مسافت کے برابر جہنم سے دور کر دیا جاتا ہے۔
(سنن ابو داود،حدیث:۳۰۹۷)
سیدنا علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:رسول اللہ ﷺنے ارشاد فر مایا کہ:جو مسلمان کسی مسلمان کی عیادت کے لئے صبح کو جاتا ہے توشام تک ستر ہزار فر شتے اس کے لئے استغفار کرتے ہیں اور شام کو جائے تو صبح تک ستر ہزار فر شتے اس کے لئے استغفار کرتے ہیں ،اور اس کے لئے جنت میں ایک باغ ہوگا۔
(تر مذی،حدیث:۔ابوداود،حدیث:)
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
نبی کریم ﷺنے ارشاد فر مایا کہ:مسلمان جب مسلمان کی عیادت کرتا ہے تو واپس آنے تک وہ جنت کے باغ میں رہتا ہے۔
(صحیح مسلم،حدیث:۲۵۶۸)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
رسول اکرم ﷺنے ارشاد فر مایا کہ:جب کوئی شخص بیمار کی عیادت کو جاتا ہے تو آسمان سے منادی اعلان کرتا ہے کہ:تو اچھا ہے ،تیرا چلنا اچھا ہے اور تونے جنت کے ایک منزل کو ٹھکانا بنا لیا۔
(تر مذی،حدیث:ابن ماجہ)
اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کرنا تو اسلامی حق ہے لیکن اسلام نے انسانیت کو بنیاد بنا کر کسی غیر مسلم کی عیادت کا بھی بڑا اجر وثواب رکھا ہےروایات میں ہے کہ:
رسول اﷲ ﷺ بھی ایک غیرمسلم یہودی لڑکے کی خبر گیری اور عیادت کے لیے تشریف لے گئے اور اس کو اسلام کی دعوت دی،اوروہ لڑکا آپ ﷺ کی خوش خلقی سے متاثر ہوکر آپ کی بے لوث دعوت کے نتیجے میں مسلمان ہوگیا۔
(بخاری شریف)
بے شک اللہ تعالی کسی بھی طرح کی بیماری سے پاک ہے اور وہ انسانوں کو شفا دینے والا ہے لیکن عیادت کی فضیلت ومصلحت بیان کرنے کے لئے ایک مثال اس طرح دی گئی ہے کہ حدیث قدسی میں آتا ہے کہ:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ عزوجل قیامت کے دن فرمائے گا:
اے ابن آدم! میں بیمار ہوا اور تو نے میری عیادت نہیں کی،وہ کہے گا :
اے پروردگار! میں تیری عیادت کیسے کرتا حالانکہ تو تو رب العالمین ہے اللہ فرمائے گا کیا تو نہیں جانتا کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا اور تو نے اس کی عیادت نہیں کی، کیا تو نہیں جانتا کہ اگر تو اس کی عیادت کرتا تو تو مجھے اس کے پاس پاتا،اے ابن آدم! میں نے تجھ سے کھانا مانگا؛لیکن تو نے مجھے کھانا نہیں کھلایا،وہ کہے گا
اے پروردگار میں تجھے کیسے کھانا کھلاتا حالانکہ تو تو رب العالمین ہے تو اللہ فرمائے گا:کیا تو نہیں جانتا کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تھا؛لیکن تو نے اس کو کھانا نہیں کھلایا،کیا تو نہیں جانتا کہ اگر تو اس کو کھانا کھلاتا تو تو مجھے اس کے پاس پاتا،اے ابن آدم! میں نے تجھ سے پانی مانگا ؛لیکن تو نے مجھے پانی نہیں پلایا،وہ کہے گا:اے پروردگار!میں تجھے کیسے پانی پلاتا حالانکہ تو تو رب العالمین ہے ، اللہ تعالیٰ فرمائے گا :میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا تھا؛لیکن تونے اس کو پانی نہیں پلایا اگر تو اسے پانی پلاتا تو تو اسے میرے پاس پاتا۔
(مسلم شریف)
مریض کی عیادت کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی دھیان میں رکھنا ضروری ہے کہ ہماری عیادت سے اس کو تکلیف نہ پہنچے لہذا مریض کے پاس کم بیٹھنا اس سے اس کی ضرورت کو پوچھنا اور اسے دلاسہ دینا عیادت کے آداب میں شامل ہے۔
حضرت عبداللہ ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ عیادت کی سنت یہ ہے کہ مریض کے پاس تھوڑی دیر بیٹھا جائے اور شور کم کیا جائے ۔
(مشکوٰۃ المصابیح)
آج کل ہمارے معاشرے میں انسانی حقوق ایک رسم اور بوجھ کے طور پر نبھائے جاتے ہیں حالانکہ انسانی حقوق کی ایک اہم فریضہ ہیں اور ان کی ادائیگی میں خلوص نیت ،خندہ پیشانی ،اور ایثار و محبت کی اشد ضرورت ہے تاکہ جس طرح معاشرہ ترقی کی طرف پروان چڑھ رہا ہے اسی طرح معاشرے میں انسانیت بھی  پھلتی پھولتی رہے۔

Post a Comment

0 Comments